برسوں پہلے انڈین فنکارہ اندو ہری کمار جب محبت میں گرفتار ہوئیں تو انھیں بہترین رومینس کا احساس ہوا تھا۔ لیکن چند ہی مہینوں کے اندر ہی ’لِو ان ریلیشن شپ‘ کی پرتیں کھلنی شروع ہو گئیں۔ ان میں اکثر لڑائی ہونے لگی۔ زیادہ تر جھگڑے اس بات پر ہوتے کہ وہ انٹرنیٹ پر کیا پوسٹ کر رہی ہیں۔ اندو ہری کمار نے بی بی سی کو بتایا: ‘مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اسے کون سی چیز مشتعل کر دے۔ جب بھی میں سوشل میڈیا پر کوئی تصویر یا سیلفی شیئر کرتی، وہ اس بات پر پریشان ہوجاتا کہ کون میری تصویر کو پسند کرتا ہے، کون اس پر تبصرہ کر رہا ہے۔’ چونکہ وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی…
عام دنوں سے دن تھے۔ عام دنوں سے بھی برے دن تھے۔ کیونکہ ساری دنیا کی بے زاری میرے رویے میں تھی۔ عام دنوں میں پھر بھی مصروفیت رہتی ہے۔ کسی نہ کسی سے ملنا۔ کام کی بھاگ دوڑ رہتی۔ مگر ان دنوں وحشت چھائی تھی۔ تم انہی دنوں نظر آئے۔ نظر تو پہلے بھی آتے تھے۔ مگر اس دن ذرا مختلف نظر آئے۔ بات سے بات جملے سے جملہ گھنٹوں تک وقت کا پتہ نہ چلا۔ ایسا نہیں ہوتا اب میرے ساتھ۔ میں ٹو دی پوائنٹ بات کرنے والی بندی ہوں۔ اپنا نکتہ نظر رکھا۔ اور بس نکل لیے۔ مگر یہ کیا تھا کہ وقت گزرنے کا پتہ نہ چلا۔ پھر ایسے ہی وقت گزرنے لگا۔ تمہیں وقت ملتا تم پکار لیتے مجھے ملتا…
اک برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے۔ پر یہ کیسا نئے سال کا سورج طلوع ہوا کہ پوری دنیا کی تاریخ کو بدل کے رکھ دے گا۔ یہ کیسا سال ہے کہ جس میں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں موت کی دہشت اور کرونا وائرس کا خوف نہیں۔ چین سے ہوتے ہوئے ایران، اٹلی، سپین اور امریکہ سے ہوتا ہوا یہ پاکستان تک بھی پہنچ گیا۔ جہاں پہلے پہل تو اس کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ ہم ہی کیا جب امریکی صدر ٹرمپ تک اسے چائنیز وائرس کہہ کے اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ جب اس کے اپنے ملک پہنچنے سے پہلے حفاظتی اقدامات کی ضرورت تھی۔ وہاں اسے اتنا ہلکا لیا گیا کہ پی ایس ایل تک منعقد کروا ڈالا۔ دنیا کی …
اس دن موسم کچھ سرد تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر گہرا ابر تھا۔ میں ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کے چیف ایڈیٹر اسد صاحب کے آفس میں بیٹھا تھا۔ در اصل میں ’لیل ونہار‘ کے ادبی صفحے کا انچارج تھا۔ اسی حوالے سے وہاں میری حاضری ہوتی تھی۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں تھا۔ یہ خوشبو سے بھرا ایک جھونکا تھا جب کہ آفس کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔ یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ اس بادِ نسیم کا جھونکا تھا جو کسی حور شمائل کے بدن کو چھو کر آتی ہے۔ وہ اسد صاحب کی اجازت سے اندر آئی تھی لی…
بعض سوال بظاہر بہت آسان لیکن درپردہ بہت مشکل ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق انسانی نفسیات اور رشتوں سے ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی نفسیات پیچیدہ ہے اور رشتے گنجلک ہیں۔ میرے ایک دانشور دوست نے اپنے محبت نامے میں کتنی معصومیت سے کتنا گہرا سوال پوچھا ہے۔ لکھتے ہیں ’ محترم ڈاکٹر خالد سہیل! ایک سوال کے ضمن میں رہنمائی فرمائیے۔ آپکی رائے میں کیا کسی فرد کی عمومی ذہانت اور اس کی محبت کرنے کی صلاحیت میں کوئی تعلق پایا جاتا ہے؟ اگر جواب آپ کے کالم کی صورت میں ہو تو ہم سب کے دیگر پڑھنے والے بھی مستفید ہو سکیں۔ نیازمند‘ میری نگاہ میں…
Social Plugin