بعض سوال بظاہر بہت آسان لیکن درپردہ بہت مشکل ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق انسانی نفسیات اور رشتوں سے ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی نفسیات پیچیدہ ہے اور رشتے گنجلک ہیں۔
میرے ایک دانشور دوست نے اپنے محبت نامے میں کتنی معصومیت سے کتنا گہرا سوال پوچھا ہے۔ لکھتے ہیں
’ محترم ڈاکٹر خالد سہیل! ایک سوال کے ضمن میں رہنمائی فرمائیے۔ آپکی رائے میں کیا کسی فرد کی عمومی ذہانت اور اس کی محبت کرنے کی صلاحیت میں کوئی تعلق پایا جاتا ہے؟ اگر جواب آپ کے کالم کی صورت میں ہو تو ہم سب کے دیگر پڑھنے والے بھی مستفید ہو سکیں۔ نیازمند‘
میری نگاہ میں محبت دو انسانوں کے درمیان قربت ’اپنائیت‘ اخوت اور رفاقت کے جذبے کا نام ہے۔ جب تک یہ جذبہ انسان کے اپنے قلب اور ذہن میں رہتا ہے وہ تجربہ ذاتی ہوتا ہے لیکن جونہی وہ اس جذبے کا اظہار دوسرے انسان سے کرتا ہے وہ جذبہ رومانوی اور سماجی بن جاتا ہے اور اس کا تعلق جنس۔ شادی۔ بچوں۔ اور خاندان سے جڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
میری نگا ہ میں جنس ایک جسمانی تعلق ہے محبت ایک جذباتی تعلق ہے اور خاندان ایک سماجی تعلق ہے۔
جب محبت کا تعلق جنس ’شادی اور بچوں سے جڑتا ہے تو وہ جذبہ گنجلک اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس محبت کے جذبے کا عقلِ عامہ سے کیا تعلق ہے؟
ماہرین بشریات اور نفسیات اس حقیقت سے واقف ہیں کہ انسان کی عقلِ عامہ کا تعلق انسانی دماغ سے ہے۔ جب بچہ بلوغت کو پہنچتا ہے تو اس کی ذہانت
اپنے عروج تک پہنچتی ہے۔ عرفِ عام میں ہم اسے INTELLIGENCE: IQ کہتے ہیں۔
عام انسان کا IQ۔ 100 ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کا IQ۔ 50 ہو تو ہم اسے کند ذہن یا کم عقل سمجھتے ہیں اور اگر کسی انسان کا IQ۔ 150 ہو تو وہ انسان جینیس اور نابغہِ روزگار سمجھا جاتا ہے۔
انسانی عقل انسان کی نصابی کاموں میں مدد کرتی ہے۔ ایک ذہین بچہ اور نوجوان اپنی عقلِ اور محنت سے سکول ’کالج اور یونیورسٹی کے امتحان پاس کرلیتا ہے اور ایک ڈاکٹر‘ ٹیچر یا انجینیر بن کر معاشی اور سماجی طور پر خوشحال زندگی گزارسکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی انسان کی کامیاب پیشہ ورانہ زندگی اس کی کامیاب محبت کی زندگی کی بھی ضامن ہوتی ہے یا نہیں؟
ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ذہانت محبت کے لیے اہم ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محبت کی کامیابی کے لیے بہت سے اور عوامل بھی اہم ہیں۔ ان عوامل میں جسمانی ’جذباتی اور سماجی سبھی عوامل اہمیت رکھتے ہیں۔
جب بچہ سن ِ بلوغت تک پہنچتا ہے تو اس کے جسم کے ہارمونز فعال ہو جاتے ہیں اور اس کے جسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ لڑکیوں کو حیض اور لڑکوں کو شہوانی خواب آنے لگتے ہیں۔ جب کسی نوجوان کے ہارمونز فعال ہو جائیں تو اس کے من میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ کسی کی محبت میں گرفتار ہو۔ کسی کو چاہے اور کوئی اسے چاہے۔ وہ ایک محبوب بنائے اور اس محبوب کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارے۔ اسے چھوئے اسے گلے لگائے اسے چومے اور اس کے ساتھ مباشرت کرے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔
اگر وہ نوجوان ایک لبرل معاشرے میں رہتا ہے اور اس ماحول میں ڈیٹنگ کی اجازت ہے تو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اپنی پسند اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے شریکِ سفر اور شریکِ حیات تلاش کرتے ہیں۔
لیکن اگر وہ نوجوان روایتی ماحول میں زندہ ہے جہاں جنس ’رومانس اور ڈیٹنگ کو گناہ سمجھا جاتا ہے تو ایسا ماحول منافقت کی فضا کو جنم دیتا ہے۔
ایسے ماحول میں نوجوان چھپ کرملتے ہیں اور ایک دوسرے کو غلط فہمیوں کا شکار کرتے ہیں
؎ دن کوکہتی ہے جس کو وہ بھائی
رات کو چھپ کے اس سے ملتی ہے
رات کو چھپ کے اس سے ملتی ہے
ایسے ماحول میں لوگ ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں شادی اور محبت کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور پھر دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں محبت کا فطری جذبہ۔ جنس۔ شہوت۔ ہوس۔ کے دھندلکے میں کھو جاتا ہے اورمحبت پر دیوانگی کا گماں ہونے لگتا ہے اورشاعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ؎ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔
ایسے منافق معاشروں میں LOVE MARRIAGES گناہ
اور LOVELESS MARRIAGESثواب بن جاتی ہیں۔
؎جنوں کا نام خردرکھ دیا خرد کا جنوں
ایسے منافق معاشرے میں محبت کا فطری جذبہ غیر فطری روایات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور عقل ماتم کرنے لگتی ہے۔
ایسے معاشرے جہاں تین نسلیں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں دو انسانوں کو اپنی محبت کو پروان چڑھانے کے لیے جو تخلیہ اوریکسوئی چاہیے وہ نہیں ملتی اور نوجوانوں کی محبت کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے اورمحبت کی چنگاری شعلہ بننے سے پہلے راکھ بن جاتی ہے۔
نوجوانوں کے محبت کے رشتے میں والدین کا رول ماڈل بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب نوجوان اپنے والدین سے محبت اور پیار کا اظہار نہیں سیکھتے تو وہ پورن ویڈیوز کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کی ایسی جنسی تعلیم حقیقت کم اور فینٹسی زیادہ ہوتی ہے۔
ہر معاشرے میں شاعری ادب ڈرامہ فلم پینٹنگ رقص اور دیگر فنونَ لطیفہ بھی نوجوانوں کی محبت کے حوالے سے تربیت کرتے ہیں۔ بعض روایتی معاشروں میں نوجوانوں کی جنسی تعلیم پرپابندیاں عاید کر دی جاتی ہیں اور جنس کا رشتہ محبت ’پیار اور دوستی کی بجائے گناہ و ثواب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ میری نگاہ میں محبت کے مثبت رویے کو فروغ دینے میں اس معاشرے کے ادیب‘ شاعر اور دانشور ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جب نوجوانوں کو محبت کرنے کی اجازت نہ ہو تو دو اجنبی میاں بیوی بن جاتے ہیں جو بچے پیداکرکے خاندان بنا لیتے ہیں اور اپنی منافقانہ اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کومنتقل کر دیتے ہیں۔
اب ہم واپس محبت اور عقل کے رشتے کی طرف لوٹتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عقل دو طرح کی ہوتی ہے۔
ایک عقل کا تعلق دماغ سے ہے جو امتحان کی تیاری اور اچھی ملازمت حاصل کرنے اور روزمرہ کے مسائل حل کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے ایسی عقل کو ہم INTELLECTUAL INTELLIGENCEکہہ سکتے ہیں۔
دوسری عقل کا تعلق دل سے ہے جذبات سے ہے احساسات سے ہے۔ ایسی عقل کو ہم EMOTIONAL INTELLIGENCE کہہ سکتے ہیں۔ یہ عقل محبت کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ دل کی عقل رکھنے والا انسان جانتا ہے کہ اپنی محبوبہ کا دل کیسے جیتنا ہے۔ اس سے محبت کا اظہار کیسے کرنا ہے۔ اس سے اپنے رومانوی مسائل کیسے حل کرنے ہیں اور محبت کے رشتے کو کیسے نبھانا ہے۔
میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے ایسے مردوں اور عورتوں سے ملا ہوں جن کے پاس دماغ کی عقل زیادہ تھی لیکن دل کی عقل بہت کم۔ وہ اپنے پیشے کی زندگی میں کامیاب اور اپنی محبت کی زندگی میں ناکام تھے۔
دل کی عقل کا تعلق دانائی سے ہے۔ دانا شخص یہ بھی جانتا ہے کہ اسے زندگی میں کیا کرنا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اسے کیا نہیں کرنا۔ وہ محبت کے رشتوں کو نبھانا جانتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے
؎ آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے
جو بھی نبھ جائے بھلالگتا ہے
میں نے اپنی زندگی میں اپنے محبت کے تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ
FRIENDSHIP IS THE CAKE ROMANCE IS THE ICING
میرے فلسفہِ محبت میں محبوب کا دوست ہونا بہت اہم ہے۔
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ محبت کے رشتے کئی ادوار سے گزرتے ہیں اور ہر دور کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور ان کے مخصوص حل تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ میں ان ادوار کو CYCLE OF LOVEکا نام دیتا ہوں۔ اگلے کالم میں میں محبت کے رشتوں کے مختلف ادوار پر اظہارِ خیال کروں گا۔
آخر میں میں اپنے دانشور دوست کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے محبت کے موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کی تحریک دی۔ یہ علیحدہ بات کہ میرے اس دوست کا محبت کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ مجھ سے کبھی کبھار فرمائش کرتے ہیں اور وہ مجھے اتنے عزیز ہیں کہ میں انہیں انکار نہیں کر سکتا۔