عام دنوں سے دن تھے۔ عام دنوں سے بھی برے دن تھے۔ کیونکہ ساری دنیا کی بے زاری میرے رویے میں تھی۔ عام دنوں میں پھر بھی مصروفیت رہتی ہے۔ کسی نہ کسی سے ملنا۔ کام کی بھاگ دوڑ رہتی۔ مگر ان دنوں وحشت چھائی تھی۔ تم انہی دنوں نظر آئے۔ نظر تو پہلے بھی آتے تھے۔ مگر اس دن ذرا مختلف نظر آئے۔ بات سے بات جملے سے جملہ گھنٹوں تک وقت کا پتہ نہ چلا۔ ایسا نہیں ہوتا اب میرے ساتھ۔ میں ٹو دی پوائنٹ بات کرنے والی بندی ہوں۔ اپنا نکتہ نظر رکھا۔ اور بس نکل لیے۔ مگر یہ کیا تھا کہ وقت گزرنے کا پتہ نہ چلا۔ پھر ایسے ہی وقت گزرنے لگا۔ تمہیں وقت ملتا تم پکار لیتے مجھے ملتا تو میں بلا لیتی۔ اس میں کچھ خاص تو نہیں تھا۔ دوست باتیں کرتے ہیں۔
مجھے نہیں پتہ ان باتوں کے دوران تم کب خاص بنتے گئے۔ اتنے خاص بنے کہ تمہاری غیر موجودگی کمی لگنے لگی۔ تمہارے بقول تم مصروف ہو۔ میرے بقول میں مصروف ہوں۔ تو پھر یہ کیا ہے جو دونوں کی مصروفیت کے باوجود جگہ بنا بیٹھا ہے۔ مجھے لگتا ہے وبائیں اسی لیے اترتی ہیں کہ انسان انسانوں کی قدر کریں۔ انسانوں سے محبت کریں۔ یا پھر محبتوں کو محسوس کریں۔ محبت کی گنتی کرنا بھی فضول کام ہے۔ اجی بتائیے آپ کو کتنی بار محبت ہوئی۔
یا یہ کہ بھئی ہم تو محبت میں توحید کے قائل ہیں۔ محبت تو محبت ہوتی ہے۔ پہلی یا آخری نہیں ہوتی۔ یہ مصری کی وہ ڈلی ہے۔ جسے منہ میں رکھتے ہی مٹھاس گھل جائے۔ میری نانی کہتیں تھی کہ مصری کھانے والے کا گلا سریلا ہو جاتا ہے۔ یوں تو پھر محبت والی مصری کی ڈلی سے آپ کا اندر باہر سریلا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔ محبت کے نغمے زبان پہ رہتے ہیں۔ دل ہر آہٹ پہ سمجھتا ہے کہ لو جی دیدار ہونے لگا۔ ویسے یہ موئے واٹس ایپ، میسینجر اور فیس بک نے محبت کے پرانے طریقوں کو ترک کر کے ان کی جگہ لے لی ہے۔ اب جیسے پہلے خط لکھتے تھے تو محبوبہ کبوتر کا سہارا لیتی تھی۔ آج کل واٹس ایپ کبوتر کا کام کرتا ہے۔ مجھے تو ویسے آج تک سمجھ نہ آ سکی کہ یہ معصوم کبوتر بالکل درست جگہ پہ پہنچتا کیسے تھا۔ کیا محبوب یا محبوبہ پہلے کبوتر کی ٹریننگ کراتے تھے۔ کچھ تو ہو گا۔
اب دروازے کی کھٹ کھٹ کی جگہ میسجز کی ٹوں ٹوں نے لے لی ہے۔ اور ہر ٹوں پہ لگتا ہے تم نے ہی دستک دی۔ اب محبوب گلیوں میں چکر نہیں لگاتے۔ پیکج کرا کے وڈیو کال کرتے ہیں۔ دیکھ لو بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ بات کچھ یہ تھی کہ اب پورا جسم کان بنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ٹوں ہوئی۔ جھٹ میسج چیک کر لیا۔ تم یہ نہیں کرتے۔ تم کر بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ تم حقیقت سے نظر چرانے کی کوشش میں ہو۔ تم دل و جان سے اس کوشش میں ہو کہ مجھے یہ ثابت کر سکو کہ تم یہ سب نہیں سوچتے جو میں سوچتی ہوں۔
ویسے میں کیا سوچتی ہوں۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔ جواب یہ ہے کہ تم عام سے ہو کر بھی میرے لیے خاص ہو۔ وہ کیا کہتے ہیں سوپر سے بھی اوپر ہو۔ دل لگی دل کی لگی بن گئی ہے۔ کیسے بنی اس سوال کا جواب ندارد۔ زندگی برتتے برتتے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ جس میں ایک یہ چیز بھی سیکھی کہ لمحہ موجود میں جو محسوس کرو۔ اسے کہہ دو۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔ آپ کو کوئی برا بھلا بول دے گا۔ ظاہر ہے آپ کی جان لینے سے تو رہا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بوڑھے لوگ بڑھاپے میں بہت سے پچھتاوے لے کر زندگی سے الوداع لیتے ہیں۔ یہ ہمارے وہ پچھتاوے ہوتے ہیں۔ جو ہم نے جوانی میں اپنی اناء خودداری یا شرم لحاظ میں سہیڑ لیے ہوتے ہیں۔ ہم منیر نیازی کے شعر کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔ پھر جب بڑھاپے میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو ہم اللہ اللہ کرنے کے بعد اپنے پچھتاووں کی آگ میں جھلستے ہیں۔ تو سنو بات یہ ہے کہ مجھے ایسی بڑھیا نہیں بننا۔ جو بڑھاپے میں یہ سوچتی ہوئی مر جائے کہ کاش میں اسے بتا سکتی کہ وہ مجھے کتنا عزیز تھا۔ مجھے اس سے کتنی محبت تھی۔ میں تھی کی بجائے لمحہ موجود میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ کیوں کب کیسے کس لیے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ نہ ہی یہ سوال اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ میں ان کے جوابوں کو ڈھونڈوں۔
میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ان سارے کرشوں کی موجودگی میں بھی میری دھڑکن تمہارا نام لینے سے بڑھ جاتی ہے۔ مجھے اپنے ارد گرد پھول تتلیاں ہوائیں چلتی نظر آنے لگتی ہیں۔ تھری ایڈیٹ کے عامر خان کی طرح تم مجھے ہر جگہ دکھتے ہو۔ حتی کہ میں نے زوبی ڈوبی گانا کئی عرصے سے نہیں سنا۔
یہ کچھ الگ ہے۔ بہت الگ ہے۔ لیکن بہت خوبصورت ہے۔ محبت انسان کو نکھار دیتی ہے۔ تو میں چاہتی ہوں تم نکھر جاؤ۔ تم فرار کی بجائے اقرار کا راستہ اپنا لو گے تو پتہ ہے کیا ہو گا۔ یہ وباء کے دن قید کے دنوں سے ایک دم خوشی کے دنوں میں بدل جائیں گے۔ کام بوجھ نہیں لگے گا۔ محبت کا احساس ویسے ہی سرشار رکھتا ہے۔ تو تم اس سرشاری سے بھاگنا کیوں چاہتے ہو۔ میں نہیں بھاگتی۔ کیونکہ جب آپ کسی چیز سے بھاگتے ہیں وہ ڈٹ کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس لیے جو ہے اسے تسلیم کرنا سیکھو۔ محبت کو محبت سے جواب دو۔ کیونکہ محبت کے سوال کا جواب محبت سے دینا ہی بنتا ہے۔ دیکھو یہ کیسا یادگار پل رہے گا کہ جب وباء کے خوف سے دنیا ڈر کے بیٹھی تھی۔ ہم نے محبت کی۔ وباء کے دنوں میں محبت کی۔ کیا اس سے اچھا کچھ ہو سکتا ہے۔