صحرا میں سراب

ن  ابن نور


گوادر پہنچتے ہی کنڈکٹر صاحب نے  بازوؤں سے مجھے ایسے جھنجھوڑا کہ میرا وجود  ہی ہل گیا ،"اٹھو واجہ آپ کا  گوادر آگیا "،سیاہ رنگ ,الجھے بال, سرخ آنکھیں نہ جانے کم بخت کس  کا غصہ مجھ پہ اتار رہا تھا ،میں  نیند سے  بیدار ہوا، بیگ کاندھوں پہ لٹکائے گوادر کا خیالی تصور اپنی آنکھوں میں قید کئے جب آگے بڑھنے لگا تو میری نظر ان بچوں پہ پڑی جو رستہ جام  کئے بس کے بیچوں بیچ گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے،میں ان بچوں کو  پھلانگ کر بچتے بچاتے بس کے دروازے تک جا پہنچا،باہر جھانک کر  سب سے پہلے مغرب کی جانب دیکھا توسوائے پسماندگی کے اور کچھ  دکھائی نہ دیا اشتہارات والا گوادر تو کوسوں میل دور تھا۔
بسمﷲ کرکے جب  مشرق کی طرف دیکھا تو محض غربت ہی دکھائی دی،یہ دیکھ کر میرے ذہن میں
 گمنام شاعر کا شعر گشت کرنے لگا .
"تصور میں چلے آئے، اب اصل میں دیدار کرلو"    ادھر میں سنگاپور کی  گتھی سلجھانے میں مصروف تھا کہ ایک بزرگ نے پیچھے سے آواز دی "بیٹا اگر سلام پھیر لیا  ہو تو راستہ چھوڑو  باہر سب مل کر اجتماعی دعا مانگیں گے،" آہ ! ان کا لہجہ! جیسے سارے جہاں کی کڑواہٹ ایک ہی گھونٹ میں پی گئے ہوں  ۔اب بابا جی کو کون سمجھائے کہ ہمیں دعا کی نہیں بلکہ دوا کی ضرورت ہے . ایسی دوا کی جو  گوادر  کے خوبصورت نقش کو میرے ذہن سے مٹا دے کیونکہ وہ نقش  اصلی گوادر سے بہت مختلف ہے۔
خیر میں اپنا سامان اور مرجھے ہوئے خوابوں کا ٹوکرا اٹھا کر ہوٹل کی طرف چلتا بنا۔ کریم بلوچ ہوٹل پہنچتے ہی میں نے ڈرائیور کو پیغام بھیجا کہ وہ صبح کے وقت آکر مجھے پک کرلے.دنیاوی سوچ و بچار میں میری آنکھ لگ گئی ۔
سورج کی پہلی کرن میری جبین پر پڑی. میں اس امید سےاٹھا کہ ڈرائیور صاحب پھولوں کا دستہ لیئےمیرے انتظار میں کھڑے مسکرا رہے ہونگے مگر وہ تو نہیں آئے البتہ کونے میں پڑے گھسے پٹے جوتوں کا ایک جوڑا بتیسی نکال کر مجھے خوش آمدید کہہ رہا تھا ۔
میں نے ویٹر کو آواذ دی "ایلم میرے جوتے کدھر ہیں؟ "اس ظالم نے بھی بڑی بے دردی سے جواب دیا "صاحب شاید کوئی ہیروئینچی لے گیاہو گا۔میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ قریبی مسجد سے اعلان کی گونج سنائی دی۔
اس موقع کو غنیمت سمجھ کر میں  ننگے پائوں مسجد کی جانب دوڑا اور غسل خانے کے جوتے لے کر وہاں سے فرار ہو گیا،شاید اس ہیروئینچی نے مجھ میں  بھی چوری کرنے کی ہمت پیدا کر دی تھی۔
آفس پہنچا تو سب سے  رسمی سلام دعا کی. بیچارہ چپراسی مجھ سے کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا لیکن اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی ،آخر دل پر پتھر رکھ کے اس نے پوچھ ہی لیا،سر آپ کے جوتے؟"  "میرے جوتے کوئی ﷲ کا بندا اٹھا لے گیا اور بدلے میں  یہ جوتے میں ﷲ میاں کے گھر سے اٹھا لایا ہوں" ۔  اس پر چپراسی مجھے ایسے گھورنے  لگا جیسے میں نے گناہ عظیم کیا ہو ،میں نے  بھی کہہ دیا 
کہ ﷲ اپنا حق تو معاف کر دیتا ہے ۔مگر حقوق العباد بندہ ہی معاف کرتاہے ،میں امید کرتا ہوں کہ یہ جوتے میری جنت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ 

جمعہ کا دن تھا آفس کا بھی پہلا دن تھا میں دوستوں کے ہمراہ  اپنی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوا اور
پہنچتے ہی بڑے فخر سے  سفید جوڑا نکال کر استری نکالنے ہی والا تھا کہ دوست نے پیچھے سے آواز دی "سنگت دو مہینے سے بجلی نہیں ہے" ۔جلدی جلدی سفید جوڑا  بغل میں دبائے بٹھکے ہوئے مسافر کی طرح سرگرداں ہوا ، میری نظر ایک لانڈری کی دکان پہ پڑی ۔
جوں ہی کپڑے استری ہوئے میں نے  رہائش گاہ کی جانب دوڑ لگائی ،غسل کی نیت سے غسل خانے میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ دوست نے آواز دی
"سنگت پانی نہیں ہے ، جاوید ہوٹل کے عقب میں ایک حجام کی دکان ہے وہاں گرم حمام کی سہولت موجود ہے۔"
نہا کر واپس آیا، بال سنوارنے کے لیئے جب آئینہ اٹھایا تو  بال  ایسے الجھے تھے جیسے کسی نے 320 وولٹ کا جٹھکا دیا ہو۔میں سمجھ گیا کہ یہ سب کمال گوادر کے پانی کا ہے ۔میں ایک بار پھر یوسین بولٹ کی طرح  دکان پہ پہنچا، وہاں سے 50 والی تین منرل واٹر کی بوتلیں خرید کر بال منرل واٹر سے دھوئے تب جا کے بات بنی ۔

خیر نماز کا وقت قریب آن پہنچا۔وقت ضائع کیے بغیر تیز قدموں سے مسجد کی جانب چل دیا۔
جمعہ پڑھنے کے بعد جب  بارگاہ الہی  میں ہاتھ اٹھائے تو دس سالوں میں پہلی بار  میں نے اسے نہیں بلکہ اپنی چوری کی بخشش مانگی۔
شدید بھوک لگی تھی، ڈائمنڈ ہوٹل پہنچا۔ہوٹل میں داخل ہوتے ہی میری نظر کونے میں پڑے جوتوں پہ پڑی ،ایلم سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ جوتے کوئی پوڈری چھوڑ گیا تھا،
سوچا تھا گوادر ہے بجٹ بھی خسارے میں ہے خوب مچھلی کھاؤں گا ۔ایک پاؤ  مچھلی ایک دم سےہی چٹ کر گیا۔ڈکار مارنے ہی والا تھا کہ کمبخت ویٹر نے  پانچ سو تیس روپے کا بل تھما دیا۔میں تو بل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔
پھر دل کو تھام کر  معصومیت سے عرض کی:"ایلم بل کچھ زیادہ نہیں بنایا آپ نے؟" "صاحب ویسے تو آپکا بل چھ سو کا بنتا ہے۔وہ تو آپ کو اپنا  کسٹمر بنانے کے لئیے میں نے آپ کے ساتھ ڈسکاؤنٹ کیا ہے۔"
مجھے بہت دکھ ہوا ,کاش کوئی نور الامین مینگل جیسا قابل افسر یہاں بھی ہوتا تو شاید میرے دو ڈھائی سو روپے بچ جاتے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی تو دیکھو جتنے بھی گئے گزرے افسر ہوتے ہیں انہیں ہمارے سر تھوپ دیا جاتا ہے،اور  رہی بات کمشنر صاحب کی تو   وہ بیچارے زمینوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔
 ذہنی پریشانی سے بچنے کے لیئے میں نے سگریٹ کےکش لگانے شروع کیئے اور وہ جوتے لے کر  مسجد کی طرف چل پڑا ،جوتے مسجد کے غسل خانے کیلیے وقف کردیئے تب جاکہ میرے دل کو ٹھنڈک اور جوتوں کو  انصاف ملا.
نکلنے سے پہلے دوبارہ دربار الہی  میں اپنے ہاتھ اٹھا لیئے ،"یا رازق، یا مالک! چائینہ کی چپل لے  گیا تھا ۔ بدلے میں بلوچی چوٹ دے آیا ہوں حساب برابر"۔۔۔۔
               مجبوری کی لعنت نے
       ہمیں بھی چور بنا دیا کمبخت نے

(جاری)