ن ابن نور گوادر پہنچتے ہی کنڈکٹر صاحب نے بازوؤں سے مجھے ایسے جھنجھوڑا کہ میرا وجود ہی ہل گیا ،"اٹھو واجہ آپ کا گوادر آگیا "،سیاہ رنگ ,الجھے بال, سرخ آنکھیں نہ جانے کم بخت کس کا غصہ مجھ پہ اتار رہا تھا ،میں نیند سے بیدار ہوا، بیگ کاندھوں پہ لٹکائے گوادر کا خیالی تصور اپنی آنکھوں میں قید کئے جب آگے بڑھنے لگا تو میری نظر ان بچوں پہ پڑی جو رستہ جام کئے بس کے بیچوں بیچ گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے،میں ان بچوں کو پھلانگ کر بچتے بچاتے بس کے دروازے تک جا پہنچا،باہر جھانک کر سب سے پہلے مغرب کی جانب دیکھا توسوائے پسماندگی کے ا…
Social Plugin