عنبر آٹھویں کلاس کی ہونہار
طالبہ تھی۔کم گوئی اور معصومیت اس کی پہچان تھی۔اس کا بھائی جو دوسری جماعت
کا طالبعلم تھا بس وہی اس کی دنیا تھی۔والد دوبئی سے اتنے پیسے بھیجتا تھا کہ عنبر
کی والدہ کو گھر چلانے میں کوئی دقت نہ آتی۔محلے کی خواتین کام کاج سے فارغ ہو کر
ان کے پاس آ جاتیں۔بچے سکول جاتے تو اکیلے میں اس کا بھی وقت اچھا گزر جاتا۔عنبر
سکول سے آتے ہی کچن میں والدہ کا ہاتھ بٹاتی اور پھر بھائی کے ساتھ مگن ہو
جاتی۔عنبر کی والدہ حسب معمول اپنی سہیلیوں کے گھر ملنے کے لیے چلی جاتی اور پھر
کب شام ہو جاتی معلوم ہی نہ ہوتا۔واپس آکر بچوں کو کھانا کھلا کر فوری انہیں ان کے
کمرے میں بھیجنا اس کی شائد عادت تھی اور بچے بھی بلاچون و چراں حکم کی تعمیل
کرتے۔وہ ٹیلی ویژن لگا کر من پسند ڈراموں میں مگن ہو جاتی۔یوں ہی زندگی کا
یہ سلسلہ بھی گھڑی کی سوئی کی طرح مقررہ دائرے میں گھومتا رہتا۔لیکن سال میں دس دن
ایسے بھی آتے جب عنبر کے ابو چھٹیوں پر آتے گھر میں محلے کی خواتین کا آنا تو کم
ہو جاتا مگر عنبر اور اس کے بھائی کی دنیا میں جیسے بہار آجاتی۔مل کر کھاناکھانا
گھومنا پھرنااور مستیاں کرنااس قدر ان کی زندگیوں میں مسرتیں بکھیرتا کہ پورے سال
کی تنہائیاںں بھول جاتے۔آٹھویں جماعت کے بعد عنبر کا داخلہ گھر سے تھوڑا دور ایک
سکول میں ہو گیا۔آنے جانے کے لیئے وین لگوا لی۔سکول میں سب دوست نئی تھیں چند دنوں
کے بعد وہ بھی اس ماحول میں گھل مل گئی سب اچھا لگنے لگا۔نئے سکول میں اسے پندرہ
دن ہو چکے تھے وہ سکول کی ہر جگہ سے واقف تھی۔بریک میں دوستوں کے ساتھ کھیل کود تو
کرتی مگر عالیہ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا اسے اچھا لگتا تھا۔عالیہ دل کی بہت
اچھی مگر تنہائی پسند لڑکی تھی۔ایک دن عنبر اپنی دوست کے لیئے کچھ خاص لنچ لے کر
آئی مگر بریک میں عالیہ اسے کہیں نظر نہ آئی وہ اسے تلاش کرتے کرتے سکول کے پچھلے
حصے کی جانب نکل آئی اسے کہیں نہ پا کروہ مایوس لوٹ رہی تھی کہ اچانک ایک ٹوٹے
پھوٹے کمرے سے گفتگو سنائی دی اس نے توجہ دی تو اسے معلوم ہوا عالیہ باتیں کر رہی
ہے جب اس نے اندر دیکھا تو حواس باختہ ہو گئی۔عالیہ ایک ہاتھ سے موبائل فون کان کو
لگائے دیوار کی طرف منہ کر کے عجیب وغریب آوازیں نکال رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے
اپنے جسم کے اعضائے مخصوصہ کو مساج دے رہی تھی۔عنبر کے لئے یہ منظر انتہائی عجیب
تھا۔وہ اس کو آواز دینا چاہتی تھی مگر اس کے حلق سے آواز نے جیسے ناتہ ہی توڑ لیا
تھا ۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی جانب بڑھنے لگی مگر عالیہ آنکھیں بند
کیئے نہ جانے کس دنیا میں مگن تھی کہ عنبر کے جھنجھوڑنے کے باوجودنہ تو اس کی
آوازوں میں تبدیلی آئی اور نہ ہی اس کا ہاتھ جس سے وہ خود کو مساج دے رہی تھی تھما
۔پھر چانک وہ مڑی اور عنبر سے لپٹ گئی ۔عنبر کے لیئے یہ سب نیا تھا اس کو عالیہ کے
لپٹنے کی وجہ تو شاید معلوم نہ تھی مگر وہ اس کی حالت دیکھ کر پیچھے بھی نہی ہٹنا
چاہتی تھی اس کو معلوم ہی نہ ہوا کہ کب عالیہ نے اپنا ہاتھ اس کی شرٹ میں داخل کر
کے اس کے سینے پر پھیرنا شروع کر دیا۔شائد وہ اس کو روک بھی لیتی مگر عالیہ نے اس
کے زیریں لب پر اپنے ہونٹ یوں پیوست کر دیئے کہ عنبر اسے نہ روک پائی۔کچھ دیر بعد
حواس بحال ہوئے تودونوں نے اپنا اپنا یونیفارم درست کیااور بغیر ایک دوسرے سے بات
کیے تیز تیز قدم اٹھائے گراؤنڈ کی جانب بڑھ گئیں۔بریک ختم ہو چکی تھی تمام لڑکیاں
اپنی اپنی کلاس میں جا چکی تھیں وہ دونوں سہمی سہمی کلاس میں داخل ہوئیں ٹیچر بورڈ
پر میتھ کا سوال حل کروا رہی تھی۔وہ دونوں دبے پاؤں اپنے بینچ پر بیٹھ گئی۔ٹیچر کو
تو ان کے آنے کی خبر نہ ہوئی مگر عنبر گھبرائی اور ڈری ہوئی تھی اس کو لگ رہا تھا
کہ کچھ غلط ہو گیا ہے اسے
محسوس ہو رہا تھا کہ پوری کلاس اسے دیکھ کر منہ چڑا رہی ہے۔ اس کی نظریں تو اس بورڈ کی جانب تھیں جس پر ٹیچر سوال حل کر رہی تھی مگر اس کی سوچ بھنور میں پھنسی اس گیلی لکڑی کی ماند تھی جو پانی کے اس دائرے سے باہر نہیں نکل پاتی اور پھنوربھی ایسا جو دور تیرتی چیزوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر تہہ خاک تک پہنچا دیتا ہے۔وہ کلاس میں بیٹھے ہوئے بھی موجود نہ تھی۔اسی اھیڑبن میں اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ جانے کب چھٹی کی گھنٹی بجی۔عالیہ نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کلاس ختم ہونے کا بتایا، وہ اٹھی اور خاموشی سے عالیہ کے پیچھے چل دی۔وہ دونوں وین میں سوار ہوئیں عنبر نے وین میں داخل ہوتے ہی ٹیک لگا کرآنکھیں بند کر لیں عالیہ نے اس کا ہاتھ تھاما تو اسے خبر ہوئی کہ عنبر کو تو شدید بخار ہے۔جونہی عنبر کا گھر آیا عالیہ بھی ساتھ اترگئی ۔عنبر کو اس کے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اس کی والدہ کو بتایا کہ اسے بخار ہو گیا تھا میں اس کی دوست ہوں سوچا اسے گھر چھوڑ دوں عنبر کی والدہ چونکہ ایک ملنسار خاتون تھیں اس کا شکریہ ادا کیا اور عنبر کو بخار کی دوائی پلا کر سلا دیا۔عالیہ نے بتایا کہ آنٹی میرا گھر آپ کے قریب ہی ہے میں چلی جاؤں گی مگر عنبر کی امی نے اس کے ساتھ جانا مناسب سمجھا ۔گھر پہنچے تو عالیہ نے اپنی امی کو عنبر کی والدہ کا تعارف کروایا ۔پھر ملیں گے کا کہ کر عنبر کی والدہ گھر واپس آگئیں ۔عنبر کا بخار تو ٹوٹ چکا تھا مگر وہ گہری نیند سو چکی تھی۔شام کو عنبر اٹھی تو اس کی طبیعت تو کافی بہتر تھی مگر وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی۔اس کی امی نے کہا، عالیہ کتنی اچھی لڑکی ہے تمہیں گھر تک چھوڑنے آئی وہ ہمارے قریب ہی رہتے ہیں تم اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو اور کپڑے تبدیل کر لو ۔امی کی بات سنتے ہی وہ اٹھی اور کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔اب اس کا دماغ بوجھل نہیں تھاوہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
محسوس ہو رہا تھا کہ پوری کلاس اسے دیکھ کر منہ چڑا رہی ہے۔ اس کی نظریں تو اس بورڈ کی جانب تھیں جس پر ٹیچر سوال حل کر رہی تھی مگر اس کی سوچ بھنور میں پھنسی اس گیلی لکڑی کی ماند تھی جو پانی کے اس دائرے سے باہر نہیں نکل پاتی اور پھنوربھی ایسا جو دور تیرتی چیزوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر تہہ خاک تک پہنچا دیتا ہے۔وہ کلاس میں بیٹھے ہوئے بھی موجود نہ تھی۔اسی اھیڑبن میں اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ جانے کب چھٹی کی گھنٹی بجی۔عالیہ نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کلاس ختم ہونے کا بتایا، وہ اٹھی اور خاموشی سے عالیہ کے پیچھے چل دی۔وہ دونوں وین میں سوار ہوئیں عنبر نے وین میں داخل ہوتے ہی ٹیک لگا کرآنکھیں بند کر لیں عالیہ نے اس کا ہاتھ تھاما تو اسے خبر ہوئی کہ عنبر کو تو شدید بخار ہے۔جونہی عنبر کا گھر آیا عالیہ بھی ساتھ اترگئی ۔عنبر کو اس کے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اس کی والدہ کو بتایا کہ اسے بخار ہو گیا تھا میں اس کی دوست ہوں سوچا اسے گھر چھوڑ دوں عنبر کی والدہ چونکہ ایک ملنسار خاتون تھیں اس کا شکریہ ادا کیا اور عنبر کو بخار کی دوائی پلا کر سلا دیا۔عالیہ نے بتایا کہ آنٹی میرا گھر آپ کے قریب ہی ہے میں چلی جاؤں گی مگر عنبر کی امی نے اس کے ساتھ جانا مناسب سمجھا ۔گھر پہنچے تو عالیہ نے اپنی امی کو عنبر کی والدہ کا تعارف کروایا ۔پھر ملیں گے کا کہ کر عنبر کی والدہ گھر واپس آگئیں ۔عنبر کا بخار تو ٹوٹ چکا تھا مگر وہ گہری نیند سو چکی تھی۔شام کو عنبر اٹھی تو اس کی طبیعت تو کافی بہتر تھی مگر وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی۔اس کی امی نے کہا، عالیہ کتنی اچھی لڑکی ہے تمہیں گھر تک چھوڑنے آئی وہ ہمارے قریب ہی رہتے ہیں تم اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو اور کپڑے تبدیل کر لو ۔امی کی بات سنتے ہی وہ اٹھی اور کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔اب اس کا دماغ بوجھل نہیں تھاوہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
آج پہلی دفعہ وہ خود کو کپڑے اتار کر شیشے میں مسلسل گھوررہی تھی
۔اسے یوں لگ رہا تھا جیسے دنیا کی تمام راحتیں امڈ کر اس کے تن اور من میں سمو گئی
ہیں ۔پہلی دفعہ اسے اپنے خدو خال پر پیار آرہا تھا۔جوں جوں شاور کا پانی اس کے جسم
پر پڑ رہا تھا وہ یوں محسوس کر رہی تھی جیسے صحرا کی تپتی ریت پر رم جھم ہو رہی
ہواس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش اب عالیہ میرے ساتھ ہوتی اس کی کمی اسے شدت سے
محسوس ہو رہی تھی۔شاور لینے کے بعد کپڑے تبدیل کرتے کرتے اس کی نظریں مسلسل شیشے
پر ہی جمی تھیں وہ خود میں مگن ہو گئی اچانک امی کی آواز آئی کہ باہر آؤ تم سے
کوئی ملنے آیا ہے اس نے آخری نظر شیشے پر ڈالی اور ڈرائینگ روم میں آ گئی وہ یہ
دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جو خواہش وہ نہاتے ہوئے کر رہی تھی وہ اتنی جلد پوری
ہوچکی تھی۔ عالیہ اور اس کی امی عنبر کی والدہ کے ساتھ خوش گپیوں میں محو تھیں
عنبر نے سلام کیا اور اپنی امی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد عنبر کی امی
نے کہا بیٹا آپ کی آنٹی گجریلہ لائی ہے کچن میں جا کر پلیٹوں میں ڈال کر چائے کے ساتھ
لے آؤ اور آپنی بہن کو بھی ساتھ لے جاؤ۔چائے کا سنتے ہی علی جو اب تک کارٹون
دیکھنے میں مصروف تھا دوڑتا ہوا کچن میں عنبر کے پاس آگیا۔عنبر اور عالیہ کی دوستی
اب اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اکٹھے سکول جانا مل کے واپس آنا ہوم ورک کے لیئے رات دیر
تک اکٹھے رہنا معمول تھا۔ایک دن جب وہ سکول سے واپس آئی تو معلوم ہوا کہ عالیہ کی
امی کسی رشتہ دار کی فوتگی پر جا رہی ہیں اور عنبر کی امی بھی ان کے ساتھ جائیں گی
ہفتہ کا دن تھا اور وہ جاتے ہوئے علی کو بھی ساتھ لے گئیں فیصلہ یہ ہوا کہ عنبر
گھر میں اکیلی ہو گی تو وہ عالیہ کے ساتھ ان کے گھر رہ لے گی۔عالیہ اور عنبر نے
کچھ دیر ٹی وی دیکھا پھر کمپیوٹر پر فیملی کی تصاویردیکھنے لگیں۔عنبر کو کمپیوٹر
کا کوئی نالج نہ تھا کیوں کی اس کے پاس کمپیوٹر تھا ہی نہی۔عالیہ نے اسے انٹرنیٹ
پر کچھ معلومات دیں وہ بڑے اشتیاق سے مختلف معلومات حاصل کرنے لگی جب عالیہ نے
دیکھا کہ عنبر مکمل طور پر مصروف ہو گئی ہے تو وہ اٹھ کردوسرے کمرے میں چلی
گئی۔اپنا موبائل جو اس نے چھپایا ہوا تھا نکالا اور ایک نمبر ڈائل کیا۔عنبر بھی
چپکے سے اس کے پیچھے گئی اور چھپ کر دیکھنے لگی۔
رنگ بجتے ہی اس نے کٹ کر دیا۔ایک منٹ بعد کال آئی تو عالیہ نے سلام کے بجائے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا ناصر مجھے تم سے بات نہی کرنی تمہیں پتا ہے آج دس دن ہو گئے میں ہر روز کال کرتی ہوں جب بھی کال کروں تو تمہارا نمبر بند جارہا ہوتا ہے تمہیں معلوم ہے میں کتنی پریشان تھی تھوڑے توقف کے بعد عالیہ کا لہجہ اچانک تبدیل ہو گیا یوں محسوس ہوا جیسے وہ ناصر کا جواب سن کر مطمئن تھی ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعدعالیہ نے کہا کہ پہلے تم میرے نمبر پر لوڈ کرواؤ،بعد میں بات کرتے ہیں، یہ کہہ کراس نے فون بند کر دیا۔عالیہ کمرے سے نکلی اور عنبر کے پاس آگئی عنبر نے بتایا کہ میں نے بہت سے مہندی کے ڈیزائین دیکھے ہیں ۔عالیہ نے اسے کہا کہ میں تمہیں کچھ اور دیکھاتی ہوں یہ کہہ کر اس نے پورن سائٹس کھولنا شروع کر دیں کافی دیر دیکھنے کے بعد عنبر نے کہا کہ صرف تصویریں ہی ہیں تو عالیہ نے پورن کلپ نکال کر دکھانا شروع کر دیئے۔وہ کافی دیر تک دیکھتی رہیں اور ایک دوسرے سے مستیاں کرتی رہیں ۔اچانک عالیہ کے فون کی گھنٹی بجی اس نے عنبر سے کہا کہ میرے دوست کی کال آئی ہے میں سن لوں عالیہ بات کرتے کرتے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔تھوڑی دیر بعد جب عنبر اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو عالیہ با الکل اسی کیفیت میں تھی جس میں عنبر نے اسے سکول میں دیکھا تھامگر اس دفعہ وہ اپنے بیڈ پر بے لباس لیٹی عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہی تھی عنبر خود اپنے جسم میں بھی ٹوٹ پھوٹ سی محسوس کر رہی تھی بھی اس لیئے وہ بھی کپڑے اتار کر عالیہ کے ساتھ لپٹ گئی موبائل کا لاؤڈسپیکرآن ہو گیا ور وہ دونوں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئیں۔ اس دوران جانے کب ناصر کا فون بند ہوا ،دونوں کو خبر ہی نہ ہوئی۔چند منٹ تک غنودگی اکی کیفیت طاری رہنے کے بعد عالیہ اٹھی کپڑے پہنے اور عنبر کو بھی اٹھا دیا دونوں کپڑے پہن کر کچن میں آ گئیں عالیہ نے چائے بنائی اور دونوں اپنا اپنا چائے کا مگ تھامے ڈرائنگ روم میں آ گئیں ۔چائے کی چسکی لیتے ہوئے عنبر نے پوچھا یار یہ ناصر کون ہے ؟ عالیہ نے بتایا یہ میرا بوائے فرینڈ ہے ہم ہفتے میں ایک بار اورل سیکس کرتے ہیں سکول میں اس دن میں ناصر کے ساتھ ہی بات کر رہی تھی۔عنبر بڑی دلچسپی سے سن رہی تھی عالیہ نے بتایا کہ مجھے موبائل فون بھی ناصر نے لے کر دیا ہے اور جب بیلنس ختم ہو جائے تو وہ خود ہی لوڈکروا دیتا ہے ۔میری اس سے دوستی اس وقت ہوئی جب میں اپنی کزن کے ساتھ اس کی بڑی بہن سے آٹھویں کلاس کے امتحان کی تیاری کرنے گئی تھی ۔ہم روز ان کے گھر چھپ کے ملتے اور مزے کرتے مگر ایک بات کہوں جو مزا ناصر کے ساتھ مل کر دوبدو ملنے کا آتا تھا وہ ٹیلیفونک ملاقات میں نہیں ۔ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ ناصر کی کال آئی اس نے پریشان ہو کر پوچھا کہ آج آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟عالیہ نے بتایا کہ میری دوست عنبر ہے اور آپ سے بات بھی کرنا چاہتی ہے یہ کہ کر اس نے فون عنبر کے کان کو لگا دیاعنبر نے دھیمی سی آواز میں سلام کا جواب دیا پھر ایک دوسرے کا تعارف گپ شپ میں تبدیل ہو گیا جب 5منٹ تک ان کی بات چلتی رہی تو عالیہ نے کہا اسے کہو بعد میں بات ہو گی اور ہاں اسے کہو100روپے کا بیلنس کروا دینا جب عنبر نے کہا تو ناصر نے کہا تمہارے نمبر پر یا عالیہ کے نمبر پر؟ تو عنبر نے بتایا کہ میرے پاس تو موبائل ہی نہی یہ کہہ کر فون بند کر دیارات کے 9 بج چکے تھے دروازے پر دستک ہوئی عالیہ نے دروازہ کھولا تو سامنے عالیہ کی امی تھی وہ اندر آئیں ہاتھ میں کچھ سامان تھا عالیہ کو پکڑایا اور عنبر کو اس کے گھر چھوڑنے چلی گئیں۔پیر کو سکول میں بریک ٹائم عالیہ نے عنبر
کو ایک پیکٹ تھماتے ہوئے کہا کہ یہ کل ناصر نے تمہارے لئیے گفٹ بھجوایا تھامگر اسے گھر جا کر کھولنا۔رات کو جب عنبر اپنے کمرے میں گئی اور گفٹ کھول کر دیکھا تو اس میں موبائل تھا اس نے اون کیا تو ناصرکا میسج آیا ہوا تھا کہ کل میں اور عالیہ نے پییزہ کھانے جانا ہے آپ آئیں گی تو اچھا لگے گا۔زندگی میں پہلی دفعہ عنبر سکول کے بجائے ڈیٹ پر گئی اسے عجیب تو لگ رہا تھا مگر اچھا بھی محسوس ہو رہا تھا۔اس کے بعد ناصر اور عنبر فون پر رات کو بات کرتے اور دن کو عنبر اور عالیہ رات کو ہونے والی باتیں ڈسکس کرتیں۔
رنگ بجتے ہی اس نے کٹ کر دیا۔ایک منٹ بعد کال آئی تو عالیہ نے سلام کے بجائے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا ناصر مجھے تم سے بات نہی کرنی تمہیں پتا ہے آج دس دن ہو گئے میں ہر روز کال کرتی ہوں جب بھی کال کروں تو تمہارا نمبر بند جارہا ہوتا ہے تمہیں معلوم ہے میں کتنی پریشان تھی تھوڑے توقف کے بعد عالیہ کا لہجہ اچانک تبدیل ہو گیا یوں محسوس ہوا جیسے وہ ناصر کا جواب سن کر مطمئن تھی ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعدعالیہ نے کہا کہ پہلے تم میرے نمبر پر لوڈ کرواؤ،بعد میں بات کرتے ہیں، یہ کہہ کراس نے فون بند کر دیا۔عالیہ کمرے سے نکلی اور عنبر کے پاس آگئی عنبر نے بتایا کہ میں نے بہت سے مہندی کے ڈیزائین دیکھے ہیں ۔عالیہ نے اسے کہا کہ میں تمہیں کچھ اور دیکھاتی ہوں یہ کہہ کر اس نے پورن سائٹس کھولنا شروع کر دیں کافی دیر دیکھنے کے بعد عنبر نے کہا کہ صرف تصویریں ہی ہیں تو عالیہ نے پورن کلپ نکال کر دکھانا شروع کر دیئے۔وہ کافی دیر تک دیکھتی رہیں اور ایک دوسرے سے مستیاں کرتی رہیں ۔اچانک عالیہ کے فون کی گھنٹی بجی اس نے عنبر سے کہا کہ میرے دوست کی کال آئی ہے میں سن لوں عالیہ بات کرتے کرتے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔تھوڑی دیر بعد جب عنبر اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو عالیہ با الکل اسی کیفیت میں تھی جس میں عنبر نے اسے سکول میں دیکھا تھامگر اس دفعہ وہ اپنے بیڈ پر بے لباس لیٹی عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہی تھی عنبر خود اپنے جسم میں بھی ٹوٹ پھوٹ سی محسوس کر رہی تھی بھی اس لیئے وہ بھی کپڑے اتار کر عالیہ کے ساتھ لپٹ گئی موبائل کا لاؤڈسپیکرآن ہو گیا ور وہ دونوں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئیں۔ اس دوران جانے کب ناصر کا فون بند ہوا ،دونوں کو خبر ہی نہ ہوئی۔چند منٹ تک غنودگی اکی کیفیت طاری رہنے کے بعد عالیہ اٹھی کپڑے پہنے اور عنبر کو بھی اٹھا دیا دونوں کپڑے پہن کر کچن میں آ گئیں عالیہ نے چائے بنائی اور دونوں اپنا اپنا چائے کا مگ تھامے ڈرائنگ روم میں آ گئیں ۔چائے کی چسکی لیتے ہوئے عنبر نے پوچھا یار یہ ناصر کون ہے ؟ عالیہ نے بتایا یہ میرا بوائے فرینڈ ہے ہم ہفتے میں ایک بار اورل سیکس کرتے ہیں سکول میں اس دن میں ناصر کے ساتھ ہی بات کر رہی تھی۔عنبر بڑی دلچسپی سے سن رہی تھی عالیہ نے بتایا کہ مجھے موبائل فون بھی ناصر نے لے کر دیا ہے اور جب بیلنس ختم ہو جائے تو وہ خود ہی لوڈکروا دیتا ہے ۔میری اس سے دوستی اس وقت ہوئی جب میں اپنی کزن کے ساتھ اس کی بڑی بہن سے آٹھویں کلاس کے امتحان کی تیاری کرنے گئی تھی ۔ہم روز ان کے گھر چھپ کے ملتے اور مزے کرتے مگر ایک بات کہوں جو مزا ناصر کے ساتھ مل کر دوبدو ملنے کا آتا تھا وہ ٹیلیفونک ملاقات میں نہیں ۔ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ ناصر کی کال آئی اس نے پریشان ہو کر پوچھا کہ آج آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟عالیہ نے بتایا کہ میری دوست عنبر ہے اور آپ سے بات بھی کرنا چاہتی ہے یہ کہ کر اس نے فون عنبر کے کان کو لگا دیاعنبر نے دھیمی سی آواز میں سلام کا جواب دیا پھر ایک دوسرے کا تعارف گپ شپ میں تبدیل ہو گیا جب 5منٹ تک ان کی بات چلتی رہی تو عالیہ نے کہا اسے کہو بعد میں بات ہو گی اور ہاں اسے کہو100روپے کا بیلنس کروا دینا جب عنبر نے کہا تو ناصر نے کہا تمہارے نمبر پر یا عالیہ کے نمبر پر؟ تو عنبر نے بتایا کہ میرے پاس تو موبائل ہی نہی یہ کہہ کر فون بند کر دیارات کے 9 بج چکے تھے دروازے پر دستک ہوئی عالیہ نے دروازہ کھولا تو سامنے عالیہ کی امی تھی وہ اندر آئیں ہاتھ میں کچھ سامان تھا عالیہ کو پکڑایا اور عنبر کو اس کے گھر چھوڑنے چلی گئیں۔پیر کو سکول میں بریک ٹائم عالیہ نے عنبر
کو ایک پیکٹ تھماتے ہوئے کہا کہ یہ کل ناصر نے تمہارے لئیے گفٹ بھجوایا تھامگر اسے گھر جا کر کھولنا۔رات کو جب عنبر اپنے کمرے میں گئی اور گفٹ کھول کر دیکھا تو اس میں موبائل تھا اس نے اون کیا تو ناصرکا میسج آیا ہوا تھا کہ کل میں اور عالیہ نے پییزہ کھانے جانا ہے آپ آئیں گی تو اچھا لگے گا۔زندگی میں پہلی دفعہ عنبر سکول کے بجائے ڈیٹ پر گئی اسے عجیب تو لگ رہا تھا مگر اچھا بھی محسوس ہو رہا تھا۔اس کے بعد ناصر اور عنبر فون پر رات کو بات کرتے اور دن کو عنبر اور عالیہ رات کو ہونے والی باتیں ڈسکس کرتیں۔
ایک دن عنبراور ناصر نے ملنے کا پروگرام بنایا عالیہ 3دن سے گاؤں گئی
ہوئی تھی وین والے کو پہلے ہی چھٹی کا بتا چکی تھی۔ اس نے ناصر کو میسج کیا کہ
مجھے100روپے کا لوڈ کروا دینا اور اس کے بعد جب اس کی امی علی کو سکول چھوڑ کر
واپس آئی تو عنبر نے بیگ اٹھایا اور سکول کے لیئے نکل پڑی جونہی بڑی سڑک پہنچی تو
ناصر پہلے ہی وہاں گاڑی میں موجود تھا ۔گاڑی روانہ ہوئی 20منٹ کی ڈرائیو کے بعد
گاڑی ایک گھر کے سامنے رکی ناصر گاڑی سے اترا اور بڑا دروازہ کھول کر گاڑی اندر
کھڑی کی دروازہ بند کیا اوردونوں گھر میں داخل ہو گئے۔بظاہر یوں لگ رہا تھا کہ گھر
کئی روز سے بند تھا۔ناصر نے بتایا کہ یہ گھر میرے انکل کا ہے وہ آجکل فیملی کے
ساتھ دوبئی گئے ہیں ۔ناصر نے عنبر سے کہا کہ آج میں چاہتا ہوں کہ تمہیں خوش کروں
اور جو کچھ ہم ٹیلیفون پر کرتے رہے وہ اب آمنے سامنے کریں۔ بس پھر دونوں مدہوش ہو
گئے۔اس طرح ملاقاتوں کے سلسلے جاری رہے ۔ ایک مہینہ کی چھٹیوں پر گئی عالیہ جب
واپس لوٹی تو عنبر سے ملنے اس کے گھر آئی عنبر کی پریشانی اس سے دیکھی نہ گئی
عالیہ کے اصرار پر اس نے تمام واقعات اسے بتائے اور یہ بھی بتایا کہ اب 7دن سے اس
کا نمبر بھی بند جارہا ہے اور اس مرتبہ مجھے’’وہ ‘‘ بھی نہیں آئے۔ عالیہ ساری بات
سمجھ گئی اسے تسلی دی اور گھر چلی گئی۔ شام کو عالیہ اپنی کزن کے ساتھ ناصر کے گھر
گئی تو وہاں یہ جان کر ہکی بکی رہ گئی کہ ناصر کو تو دوبئی گئے آج 7دن ہو گئے
ہیں۔یہ سننا تھا کہ عالیہ کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین سرک گئی ہو۔وہ سوچ رہی تھی
کہ اگر وہ میرے سامنے ہو تو میں اس کو گولی مار دوں کمینہ میری دوست کو ماں بنا کر
اسے مشکل میں ڈال کر خود دوبئی بھاگ گیامگر اب وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔اگلے دن جب
اس نے عنبر کو بتایا تووہ بھی حواس باختہ ہوگئی۔شام کو عالیہ چائے پی رہی تھی کہ
اس کی امی نے تقریباً چیختے ہوئے آوازدی ’’جلدی آؤ عنبر نے خودکشی کر لی
ہے‘‘ یہ سنتے ہی عالیہ کے طوطے اڑ گئے وہ اٹھنا چاہتی تھی مگر غش کھا کر گری اور
بیہوش ہوگئی۔اگلے دن اسے ہوش آیا تو عنبر منوں مٹی تلے دفن ہو چکی تھی ،اس کے ماں
باپ غم سے نڈھال تھے مگر اس کے دکھ درد کو کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا ،وہ اس کرب میں
مبتلا تھی کہ وہ خود اپنی دوست عنبر کی قاتل ہے لیکن وہ یہ بات کسی سے شیئر نہیں
کر سکتی تھی۔وہ جیتے جی مر گئی اور ایک زندہ لاش بن چکی تھی۔
امتیاز شاد پیشے کے اعتبار سے معلم اور صحافی ہیں
اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں
|