اب جو کچھ ہونے والا تھا وہ رومینس ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اسے زبردستی کہا جاسکتا ہے اور اس لفظ ”زبردستی“ نے اسے اندر تک جھنجھوڑ دیا اسی سے بچنے کے لیے تو وہ سب کرنے کے لیے تیار تھی مگر اس سب میں یہ بھی ہوگا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ گھبرا کر مڑی ”فائزہ والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ “ اسلم نے کلائی سختی سے پکڑ لی ”اتنی جلدی کیا ہے جس کام سے آئی ہو وہ تو پورا کرلیں۔ “ ”اسلم مجھے تم سے کوئی کام نہیں تھا تمہیں ہی کوئی بات کرنی تھی جو کرنے کی بجائے تم بدتمیزی کر رہے ہو۔ “ بسمہ کا لہجہ سخت ہوگیا۔ بسمہ کو دکھ، ڈر اور گھبراہٹ سب ایک ساتھ…
اس دن موسم کچھ سرد تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر گہرا ابر تھا۔ میں ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کے چیف ایڈیٹر اسد صاحب کے آفس میں بیٹھا تھا۔ در اصل میں ’لیل ونہار‘ کے ادبی صفحے کا انچارج تھا۔ اسی حوالے سے وہاں میری حاضری ہوتی تھی۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں تھا۔ یہ خوشبو سے بھرا ایک جھونکا تھا جب کہ آفس کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔ یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ اس بادِ نسیم کا جھونکا تھا جو کسی حور شمائل کے بدن کو چھو کر آتی ہے۔ وہ اسد صاحب کی اجازت سے اندر آئی تھی لی…
آج تو شدید سردی تھی۔ زوار صاحب ہیلمنٹ اُتارتے ہوئے ثانیہ سے بولے۔ خیر میرے خیال میں کھانے پینے کا سامان تو پورا لے ہی آیا ہوں۔ ثانیہ آپ بھی تو حد کرتے ہیں۔ گاڑی پہ چلے جاتے یا پڑوس کے لڑکے عامر سے کہتی وہ لے آتا۔ ویسے بھی تو جب بلائیں کام کے لیے آ ہی جاتا ہے۔ وہ بات ٹھیک ہے جب تک میں بائیک چلا سکتا ہوں تو خود خود سامان لاؤں گا اور جہاں تک بات ہے گاڑی کی تو بیگم میں گاڑی کا کیا کروں گا۔ وہ تو میں نے اپنے پیارے بیٹے کے لئے سنبھال کر کھڑی کی ہوئی ہے۔ بس تم دعا کرو آج ہمارے بچے ہم سے خوش ہو کر اپنے گھروں کو جائیں یہ کہتے ہوئے۔ زوار صاحب ت…
Social Plugin