گل بانو کی شادی کی پہلی رات اور اسپتال

اب جو کچھ ہونے والا تھا وہ رومینس ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اسے زبردستی کہا جاسکتا ہے اور اس لفظ ”زبردستی“ نے اسے اندر تک جھنجھوڑ دیا اسی سے بچنے کے لیے تو وہ سب کرنے کے لیے تیار تھی مگر اس سب میں یہ بھی ہوگا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ گھبرا کر مڑی
”فائزہ والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ “
اسلم نے کلائی سختی سے پکڑ لی
”اتنی جلدی کیا ہے جس کام سے آئی ہو وہ تو پورا کرلیں۔ “
”اسلم مجھے تم سے کوئی کام نہیں تھا تمہیں ہی کوئی بات کرنی تھی جو کرنے کی بجائے تم بدتمیزی کر رہے ہو۔ “
بسمہ کا لہجہ سخت ہوگیا۔
بسمہ کو دکھ، ڈر اور گھبراہٹ سب ایک ساتھ محسوس ہورہا تھا۔ دکھ اسلم کے سطحی رویے کا، ڈر کہ پتا نہیں اسلم کیا کرنے والا ہے اور گھبراہٹ کہ کوئی اور انہیں ساتھ نا دیکھ لے۔ وہ ایک دم جیسے کسی نیند سے جاگی تھی اب اسے خود پہ حیرت ہورہی تھی کہ وہ جو بھری کلاس میں لڑکوں سے بات کرتے میں گھبراتی تھی وہ خالی کلاس میں اسلم سے ملنے اکیلی آگئی تھی۔ اس کی کلائی ابھی تک اسلم کی سخت گرفت میں تھی پہلی والی نرمی مفقود تھی۔
”محترمہ جتنی معصوم تم خود کو ثابت کرنا چاہ رہی ہو اگر اتنی ہی ہوتیں تو میرے پیچھے پیچھے اکیلے کمرے میں نا آتیں۔ بچی تو نہیں ہو کہ یہ نا پتا ہو کہ جوان لڑکا، جوان لڑکی کو اکیلے کمرے میں کیوں بلاتا ہے“
۔ جوان لڑکی۔ وہ جو ابھی تک اسکول کی بچی کہلاتی تھی اسلم اسے جوان لڑکی کہہ رہا تھا۔ ابھی تک بسمہ کی محبت میں، تصور میں، لڑکپن کی معصومیت تھی اُس نے اِس پہلو پہ کبھی کہاں سوچا تھا۔ وہ اور گھبرا گئی
”اسلم چھوڑو ہاتھ ورنہ میں چیخنا شروع کردوں گی۔ “
”واہ بھئی! آئیں بھی خود اپنی مرضی سے، میں پکڑ کے تو نہیں لایا تھا اب نخرے دکھائے جارہے ہیں۔ ویسے چیخنے سے تمہارا ہی نقصان ہوگا سارے اسکول کو پتا چل جائے گا کہ تم مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ کیا پتا کوئی اخبار تک بھی خبر پہنچا دے۔ واہ کیا مصالحے دار خبر لگے گی میٹرک کی طالبہ اپنے عاشق کے ساتھ۔ “ وہ بات کو آدھا چھوڑ کر ہنسنے لگا۔
”بدنامی بھی تمہاری ہی ہوگی اور شادی کے چانسز تو ختم ہی سمجھو پھر اس سے بہتر ہے خاموشی سے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں پھر ویسے بھی تم دوسرے کالج چلی جاؤ گی میں کسی دوسرے کالج ہاں تم رابطہ رکھنا چاہو گی تو موسٹ ویلکم ورنہ آج کی بات آج ختم۔ “
اسکی باتوں سے لگ رہا تھا کہ اسے لگ رہا کہ وہ جس جسمانی ضرورت سے آیا ہے بسمہ بھی اسی وجہ سے آئی ہے مگر ڈر رہی ہے۔ اور اس بات کا احساس ہوتے ہی شرمندگی سے بسمہ کے آنسو بہنے لگے۔
”اسلم مجھے کسی موقعے کا کوئی فائدہ نہیں اٹھانا ہاں اکیلے میں ملنے آنا میری غلطی تھی کیونکہ میں سمجھی تھی کہ تم شریف لڑکے ہو“
”اؤ میڈم جسے تم شرافت کہہ رہی ہو آج کل وہ صرف ان لڑکوں میں ہوتی ہے جن میں کوئی اور صلاحیت نہیں ہوتی“
اس نے ”کوئی اور“ اتنے معنی خیز انداز میں کہا کہ بسمہ کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔
اسی وقت بسمہ کو لگا کہ فائزہ نے اسے پکارا ہے اور شاید اسلم نے بھی وہی آواز سنی اس کے چہرے پہ آنے والے چند لمحوں کی گھبراہٹ نے بسمہ کا فیصلہ آسان کردیا
”اسلم ہاتھ چھوڑو“
وہ تھوڑا زور سے بولی۔ خالی کمرے میں اس کی آواز گونج گئی۔ اسلم کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی بسمہ نے اور زور سے آواز دی ”فائزہ“ باہر قدموں کی آواز بالکل قریب آ گئی۔ اسلم کے چہرے کی گھبراہٹ واضح ہوگئی وہ بسمہ کی کلائی چھوڑ کے کلاس کی کھڑکی سے پیچھے تنگ راہداری میں کود گیا۔ بسمہ چند لمحے سن کھڑی رہی پھر ایک دم باہر بھاگی۔ فائزہ اور ارمغان تیز قدموں سے ادھر ہی آرہے تھے فائزہ کا چہرہ دیکھ کر بسمہ کا دل رکنے لگا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور چہرہ آنسووں سے تر تھا۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے خیال آیا ”کیا ارمغان بھی“
اتنے میں ارمغان بولا ”بسمہ کہاں تھیں تم ہم تمہیں سارے اسکول میں ڈھونڈ کے آئے ہیں۔ “
”کیا کیا ہے تم نے فائزہ کے ساتھ“ بسمہ کا لہجہ بہت تیز تھا۔ فائزہ نے بسمہ کا ہاتھ پکڑ لیا اس سے بولا نہیں جارہا تھا۔ پہلے صرف نفی میں سر ہلایا پھر بہت مشکل سے بولی ”یہ میری مدد کر رہا ہے“ یہ کہہ کر دوبارہ خاموش ہوگئی اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ ”بسمہ۔ گل بانو“
”کیا ہوا فائزہ۔ جلدی بتا مجھے ڈر لگ رہا ہے“
فائزہ رو پڑی
بسمہ! بانو کی ڈیتھ ہو گئی ”
٭٭٭         ٭٭٭
میں گل بانو ہوں۔ مجھ سے آپ کا تعارف یا تھوڑی سے شناسائی بسمہ کی بدولت ہوئی۔ اب تو میں مر بھی گئی مگر جاننا چاہیں گے کہ میرے ساتھ کیا ہوا جو مجھے اتنی کم عمری میں موت کی آغوش میں لے گیا۔
اتنا تو آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا میرا تعلق ایک دیہی علاقے کے درمیانے درجے کے زمیندار گھرانے سے ہے۔ ہمارا آبائی گاؤں 2 ہزار سے بھی کم نفوس پہ مشتمل ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ دو سگے بھائیوں کی نسل ہے جو دو برادریوں کی صورت میں ایک ہی گاؤں میں رہتی ہے۔ میں نہ اپنی ذات بتاوں گی نہ صوبہ کیوں کہ آپ مسئلہ سمجھنے کی بجائے یہ فیصلہ کرنے میں لگ جائیں گے کہ یہ قوم اور یہ صوبہ تو ہے ہی ایسا۔
اب صوبہ یا قوم جیسی بھی ہو میں تو مر گئی نا۔ خیر آگے سنیں تو مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے گاؤں میں باقاعدہ شادیاں عموماً پیدائش سے پہلے ہی طے ہوجاتی ہیں اور لڑکی کے بالغ ہوتے ہی باقاعدہ رخصتی۔ میں سمجھتی تھی کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ شہر میں رہ رہی ہوں تو شاید میرے پڑھے لکھے بھائی ان رسوم کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں گے۔ اور میں بہت پر امید تھی کیونکہ وہ فلاحی کاموں میں کافی آگے آگے ہوتے تھے۔ میرے والد اور بڑے بھائی درمیانے درجے کے سیاسی کارکن تھے ہر اہم موقعے پہ ملک سدھارنے کے عزم کا اعلان کیا جاتا عورتوں پہ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی۔
میرے بھائی کا کہنا تھا کہ تبدیلی گھر سے شروع ہوتی ہے اور ہر جگہ میرا حوالہ دیتے کہ کس طرح وہ سب خاندان سے لڑ کر مجھے تعلیم دلوا رہے ہیں۔ اس کا حوالہ وہ کئی بار مجھے بھی دے چکے تھے ان کا کہنا تھا کہ میں نے بہت مشکل سے تمہیں اسکول میں پڑھانے کے لیے سب سے مخالفت مول لی ہے، کبھی بھی کچھ ایسا نہ کرنا کہ مجھے شرمندہ ہونا پڑے۔ میں نے ہمیشہ یہ بات اپنے لیے اوّلین اصول بنا کے رکھی۔ بسمہ اور فائزہ کے علاوہ کسی اور سے دوستی نا کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کیونکہ باقی لڑکیوں کی لڑکوں سے بھی دوستی تھی اور اگر بڑے بھائی کو پتا چل جاتا تو ان کے مطابق وہ میرا اسکول جانا بند کرا دیتے۔
اس خوف سے میں خود تو محدود ہی رہتی بلکہ بسمہ اور فائزہ کو بھی نصیحت کرتی رہتی مجھے صرف یہ خوف تھا کہ کسی وجہ سے میری تعلیم نہ چھوٹ جائے۔ مجھے یہ تو پتا تھا کہ میری شادی گاؤں میں ہی ایک چچا زاد کزن سے ہوگی مگر مجھے یہ بھی پتا تھا کہ اس میں کافی وقت ہے کیونکہ جب میں پانچویں میں تھی تب وہ پیدا ہوا تھا۔ اسی لیے میرا ارادہ تھا کہ میں اتنا پڑھ لوں کہ گاؤں جاکر وہاں کی لڑکیوں کے لیے اسکول بنا سکوں۔ یہ وہ خواب تھا جو کبھی کسی سے نہیں کہہ سکی۔مگر نویں کا سال اختتام پہ تھا کہ یہ ہوا کہ چھوٹے بھائی کی دوستی گاؤں کی دوسری برادری کی لڑکی سے ہوگئی۔ مجھے پتا تھا کیونکہ بھائی کے کہنے پہ میں نے ہی اُس لڑکی سے دوستی کی تھی اور بھائی کا نمبر اسے اور اس کا بھائی کو لا کر دیا تھا۔ مجھے وہ لڑکی کبھی اچھی نہیں لگی کیونکہ میری دوستی کبھی ایسی لڑکیوں سے نہیں ہوپائی مگر مجھے بھائی سے محبت تھی جس میں وہ خوش اس میں، میں خوش۔ مجھے توقع تھی کہ بابا اور بڑے بھائی اس شادی کو سپورٹ کریں گے مگر جب ان لوگوں کو پتا چلا تو میری توقع کے برعکس طوفان کھڑا ہوگیا۔
چھوٹے بھائی کو کچھ کہنے کی بجائے دوسری برادری والوں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اپنی لڑکی کو حد میں رکھو۔ ایک دن چپکے سے بھائی اور وہ لڑکی بھاگ کر دوسرے شہر چلے گئے کچھ مہینے عدالت میں مقدمہ چلا ان برادری والوں کا موقف تھا کہ لڑکی بہت چھوٹی ہے اور اسے زبردستی اغوا کیا گیا ہے۔ بھائی پہ اغوا اور زنا کا الزام لگایا گیا مگر عدالت میں لڑکی کے بیان کے ساتھ ہی عدالت نے ان دونوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فیصلے کے بعد وہ دونوں کہاں گئے کسی کو نہیں پتا۔
ہاں اس کے بعد لڑکی کے گھر والوں نے جرگے میں معاملے کو حل کرنے پہ اور زور دینا شروع کر دیا معاملہ پہلے بھی جرگے میں چل رہا تھا مگر سست رفتاری سے۔ اس دوران میٹرک کی کلاسیں بھی شروع ہوگئیں۔ میں نے اس معاملے کی کوئی بات بسمہ یا فائزہ سے نہیں کی، اور بتاتی بھی کیا؟ میری ہی شرمندگی تھی۔ ویسے بھی میں ان سے ہر بات شئیر کرتی تھی مگر یہ فرسودہ روایات کیسے بتاتی۔ میری ساری باتیں آج کیا پکا گھر جاکے کیا کیا کل کیا کرنا ہے بس اس تک رہتی تھیں ان کی طرح میں گھر کے مسئلے نہیں بتاتی تھی۔
میری کوشش ہوتی کہ میرے حوالے سے کوئی بات نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔ ہم بسمہ کی دادی کی نصیحتوں پہ بات کرتے فائزہ کی امی کی بات کرتے مگر میں ان سب باتوں سے پہلو بچا جاتی انہوں نے شاید کبھی غور بھی نہیں کیا۔ میں بھی کن غیر ضروری تفصیل میں چلی گئی مگر مر گئی ہوں نا وقت کی طوالت کا احساس بھی زندگی کے ساتھ ختم ہوگیا ہے۔ خیر گرمیوں کی چھٹیوں میں واپس گاؤں آئی تو میرے گھر والوں نے میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز رکھا ہوا تھا۔
میری شادی، جس لڑکی سے بھائی نے بھاگ کے شادی کی اس کے چچا سے۔ جو مجھ سے 40 سال بڑا بھی تھا اور پہلے سے شادی شدہ اور مجھ جتنی بیٹیوں کا باپ۔ جون کا مہینہ تو جرگے کے فیصلوں اور پیسوں کی ادائیگی میں گزرا جولائی کے شروع میں نکاح کیا گیا۔ میں شاید یہ سمجھتی رہتی کہ یہ سب میرے گھر والوں نے مجبوری میں مانا ہوگا، مگر نکاح سے ایک دن پہلے اتفاقاً میں نے بڑے بھائی کو فون پہ بات کرتے سن لیا ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ چھوٹے بھائی سے بات کر رہے ہیں اور یہ پہلے سے طے تھا کہ دوسری برادری کو میرا رشتہ دے کر معاملہ ٹھنڈا کر لیا جائے گا تاکہ پیسے زیادہ نہ دینے پڑیں۔ یہ تھے وہ بھائی جن کی عزت کے لیے میں خود کو محدود کرتی رہی۔ اپنی خواہشات ختم کیں تاکہ کوئی ان پہ انگلی نا اٹھا سکے۔ مگر انہوں نے گھرکے بیٹے کی زندگی کے لیے گھر کی بیٹی کو قربان کردیا۔
ہوتا ہوگا نکاح خوشی کا موقع، مگر مجھے لگ رہا تھا میرا جنازہ تیار کیا جارہا ہے۔ میں وہاں من پسند بہو اور بیوی کے طور پہ نہیں جارہی تھی میں انتقام کا نتیجہ تھی۔ مجھے لے جاکر اُس سن رسیدہ کے کمرے میں راتب کی طرح پھینک دیا گیا۔ اور صبح کسی معمول کی طرح مجھے سمیٹ کر اسپتال میں ڈال آئے۔ اس اسپتال کے لیے بھی کوئی انوکھی بات نہیں تھی میری موجودگی میں ہی کوئی تین چار لڑکیوں کو میری ہی حالت میں لایا گیا اور اسپتال کے عملے کو دیکھ کے لگ رہا تھا کہ وہ سب، اس کے عادی ہیں۔
اور اس کے بعد نہ ختم ہونے والا عذاب شروع ہوا بھاگ جانے والی بیٹی کا غصہ مجھ پہ اتارا جاتا، پہلے ہی مہینے امید سے ہونے کے باوجود میں گھر کے کام بھی کرتی اور رات میں شوہر کے پاس حاضری بھی ہوتی۔ میں کئی بار بے ہوش ہوئی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اگر میری غذا بہتر نہ کی گئی تو میں زچگی کا عمل نہیں سہہ پاؤں گی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنی زندگی کی دعا مانگوں یا موت کی۔ مجھے موت بہتر لگنے لگی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں میری حالت مردے جیسی ہوگئی کہ بسمہ اور فائزہ بھی دیکھ کے گھبرا گئیں مگر کیا بتاتی انہیں، کچھ تھا ہی نہیں بتانے کو جو کچھ میں سہہ رہی تھی وہ صرف محسوس کیا جاسکتا تھا بتایا نہیں جاسکتا۔ میرے شوہر کے گھر والے اب بھی اپنی گھر کی لڑکی اور میرے بھائی کی تلاش میں تھے۔ میرے گھر والوں بلکہ میرے فلاحی کاموں میں لیڈر بھائی نے پلٹ کر میرا حال پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کیوں کرتے؟ جتنا کام مجھ سے لے سکتے تھے وہ انہوں نے لے لیا اب میں ان کے کسی کام کی نہیں تھی۔
وقت گزر رہا تھا میری حالت بگڑ رہی تھی خون کی کمی ہوتی جارہی تھی میں درد سے تڑپتی رہتی تھی۔ آخری بار ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو اس نے پہلے ہی بتا دیا کہ حالت اتنی نازک ہے کہ اب صرف ماں یا بچے میں سے کسی ایک کو بچایا جاسکتا ہے۔ واپس آکر میں بہت دیر گم سم رہی مجھے پتا تھا کہ شوہر سمیت میرے سسرال والے مجھے تو بچانے کی ہرگز کوشش نہیں کریں گے ہاں شاید بچے کو بچانا چاہیں کیونکہ وہ لڑکا تھا۔ میرے حمل کا آٹھواں مہینہ ختم ہونے کو تھا میری نیندیں اڑ چکی تھیں اور اپنی زچگی سے چند دن پہلے میں نے فیصلہ کر لیا۔
میں اس دنیا میں ایک اور خود غرض بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ ایک رات میں سب کے سوتے میں چپکے سے اٹھی اور کالا پتھر پی لیا۔ اگلی صبح سب کو میری لاش ملی۔ میں اپنا بچہ اپنا ساتھ لے آئی ہوں۔ ان جیسے خود غرضوں میں رہ کر وہ بھی ان جیسا ہو جاتا اب یہاں میں اسے صرف محبت سکھاؤں گی۔ تاکہ قیامت کے دن وہ میرے ساتھ دینے کے لیے موجود ہو، دنیا کے دوسرے مردوں کی طرح اپنے فائدے کے لیے مجھے اکیلا نا چھوڑ جائے۔
ارے ہاں ایک بات تو بتا دوں میری مرنے کے دو مہینے بعد میرے سسرال والوں کو اپنی بیٹی یعنی میری بھابھی مل گئی اور انہیں اپنی عزت دوبارہ بڑھانے کا شاندار موقع مل گیا۔ اب ہم نند بھاوج مل کر ایک مرد کو دنیا کی خود غرضی سے دور صرف محبت سکھا رہے ہیں۔ یہاں اس سے مل کر مجھے پتا چلا وہ اتنی بھی بری نہیں جتنا میں سمجھتی تھی اس نے تو صرف اپنے گھر کے گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ دیکھیں بسمہ بھی یہی کرنے جارہی تھی نا۔ ہم عورتوں کو اس گھٹن سے نجات شاید موت کے بعد ہی ملتی ہے مگر میری دعا ہے کہ بسمہ کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ آپ تو اس کے ساتھ ہیں دیکھتے جائیں کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ۔” بسمہ، گل بانو کی ڈیتھ ہوگئی ہے“
بسمہ کو لگا اس کے ہاتھوں پیروں کی جان نکل گئی وہ پیچھے دیوار کے سہارے بیٹھتی چلی گئی۔ فائزہ نے ایک دم اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر بسمہ سے اٹھا ہی نہیں گیا۔ اس کے لیے دونوں ذہنی جھٹکے بہت شدید تھے۔ ارمغان فوراً بھاگ کے ذرا دور لگے الیکٹرک کولر سے پانی لے آیا۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہیں زمین پہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد فائزہ نے خود کو سنبھالا۔
”ارمغان پلیز اس کے بھائی کو بلا کر لے آؤ اس سے کہنا بسمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے رکشا لے کر آئے تو میں اسے گھر لے جاتی ہوں۔ ٹیچر نرگس کو بھی بتا دینا۔ “
کچھ ہی دیر بعد رکشا آگیا اور فائزہ اسے سہارا دے کر رکشے تک لائی۔ بسمہ کا جسم ابھی بھی بے جان ہورہا تھا۔ وہ فائزہ کے کندھے پہ سر رکھ کر بیٹھ گئی۔ رکشا چل پڑا۔ کچھ دیر بعد بسمہ کو خیال آیا
”فائزہ تجھے گل بانو کا کس نے بتایا“
”یار تو اٹھ کے گئی تو پیچھے سے اسد آگیا میں نے اسے بتایا کہ اس کی کلاس ٹیچر نے حمزہ کو کال کرنے کا کہا تھا، اس کی پہلے ہی بات ہوگئی تھی حمزہ سے کہ اس کی بات ہوگئی وہ گھر والوں کے ساتھ دو دن سے گاؤں میں ہے آج بانو کی فاتحہ تھی۔ “
”ہوا کیا تھا اسے“
”زیادہ تو نہیں پتا شاید ڈلیوری کے وقت جسم میں زہر پھیل گیا یہی اندازہ ہوا مجھے اسد کی بات سے۔ “
اس کے بعد وہ دونوں ہی چپ ہوگئیں۔ پورا رستہ بسمہ کو پورا رستہ گل بانو کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ یاد آتا رہا۔ گل بانو اس کے لیے آئیڈیل تھی، ایک مکمل لڑکی کو جیسا ہونا چاہیے۔ دھیما مزاج، مضبوط کردار، اور زمانے کی نزاکت کو سمجھ کے چلنے والی۔ ایک دم اس کا دل بھر آیا۔ اگر گل بانو ساتھ ہوتی تو آج اس کے ساتھ یہ نہ ہوتا جو ہوا گل بانو اسے پہلے ہی سنبھال لیتی۔ گل بانو نے ہمیشہ سچی دوست ہونے کا حق ادا کیا مگر جب اسے ضرورت تھی تو بسمہ کچھ بھی نہیں کرپائی۔ بسمہ کے دل میں حسرت سی اٹھی
”کاش مجھے پتا چل جاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ کاش میں اسے بچا سکتی“
گھر پہنچ کر فائزہ نے بسمہ کو سہارا دے کر اتارا وہ دونوں گھر میں داخل ہوئیں تو امی اور دادی اسے ایسے سہارا لے کر آتے دیکھ کر گھبرا گئیں۔ امی تیزی سے آگے آئیں۔
”کیا ہوابسمہ میرا بچہ“
”آنٹی وہ گل بانو۔ “ فائزہ بتانے لگے مگر بسمہ نے اس کا ہاتھ کھینچا
”چھوڑ فائزہ انہیں پتا ہوگا“ اس کے لہجے میں تلخی بھی تھی اور شکستگی بھی۔
”کیا ہوا گل بانو کو۔ کیا پتا ہوگا۔ ارے کچھ بتاؤ تو لڑکیو“
”آنٹی اس کا بی پی بہت لو لگ رہا ہے، میں کمرے میں لٹا کے آؤں پھر بتاتی ہوں۔ “ فائزہ نے جاتے جاتے مڑ کر جلدی سے جواب دیا۔
فائزہ اسے لٹا کر فوراً باہر نکل گئی پانچ منٹ بعد واپس آئی تو پیچھے امی بھی تھیں۔ فائزہ کے ہاتھ میں گلوکوز کا گلاس تھا۔ فائزہ نے اسے گلاس پکڑایا امی خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ گئیں۔
آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کچھ دیر چپ بیٹھی رہیں۔ پھر بولیں
”اسی لیے نہیں بتاتے تجھے کچھ، فوراً دل پہ لے لیتی ہے مگر سچی بات ہے، اللہ گواہ ہے، گل بانو کے انتقال کا ہمیں بھی نہیں پتا تھا ابھی فائزہ نے بتایا۔ “
بسمہ چپ رہی مگر اس کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے زیادہ یقین نہیں آیا۔
اس کے بعد سب کے درمیان ایک ان کہا سا معاہدہ ہوگیا، کوئی گل بانو کی بات نہیں کرتا تھا۔ فائزہ اور بسمہ کو لگتا تھا کہ سہیلی ہونے کے ناتے ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ تکلیف میں تھی تو کسی نہ کسی طرح اس کی مدد کی جاتی۔ مگر کیا تکیلف تھی کتنی شدید تھی اس کا وہ اندازہ نہیں کرسکتی تھیں بس ایک احساسِ ندامت تھا جو مسلسل ساتھ تھا۔
امتحان شروع ہوگئے، ایسا لگنے لگا جیسے سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ نارمل زندگی شروع ہوگئی ہے۔ مگر بسمہ کو پتا تھا سب نارمل نہیں ہے۔ اب رات رات بھر تکیے پہ سر رکھے جاگتی رہتی۔ کوئی سوچ کوئی رومانوی خیال کچھ نہیں، بس جیسے جمود طاری ہوگیا ہو۔ امتحان ختم گئے تو پریکٹیکلز کی تیاری میں لگ گئی۔
مگر کچھ دنوں سے گھر میں کچھ الگ ہلچل نظر آرہی تھی۔ ایک دو دفعہ گھر میں آنے والی خواتین بالکل نامانوس لگیں امی نے کہا میری پرانی جاننے والیاں ہیں مگر بسمہ کو لگا معاملہ کچھ اور ہے۔ ایک دن امی نے صبح صبح دونوں بہنوں کو بلا لیا اور کافی دیر بند کمرے میں کیا چلتا رہا بسمہ کو اندازہ نہیں ہوپایا۔ اس میں اتنی عقل تو تھی کہ اندازہ ہوجائے یہ سب کسی نا کسی حوالے سے اس کی شادی سے تعلق رکھتا ہے۔ شام تک معاملہ کھل بھی گیا۔
تھیں تو وہ امی کی جاننے والی ہی مگر بسمہ کو دیکھنے آئی تھیں پہلی دفعہ والی خواتین کو بسمہ کا قد چھوٹا لگا تھا مگر دوسری دفعہ والی خواتین جو لڑکے کی بھابھی بھی تھیں اور مڈل مین کا کردار ادا کر رہی تھیں انہوں نے کل شام ہی بتایا کہ باقی گھر والوں کی ریکوائرمنٹ کے حساب سے بسمہ میں تقریباً سب خصوصیات ہیں تو آج سب فارملی بسمہ کو دیکھنے آئیں گے اسی لیے امی نے صبح سے دونوں بہنوں کو بلایا ہوا تھا اور یہ بات چیت چل رہی تھی کہ اگر ان کی طرف سے ہاں ہوگئی تو یہاں سے کیا جواب دینا ہے۔ شام تک لڑکے والوں کو آنا تھا۔ اسماء آپی اور بشریٰ آپی نے اس کے کمرے میں آکر سوٹ کھنگالنے شروع کر دیے۔ بشریٰ آپی نے ایک سوٹ نکالا اور بسمہ کا دل رک سا گیا۔ بلیک اینڈ ریڈ ایمبرائڈڈ سوٹ۔
”بسمہ واہ یہ تو بہت زبردست سوٹ ہے کب لیا تم نے بس یہی پہن لو، ہیں نا آپی“ انہوں نے اسماء آپی سے تصدیق بھی چاہی جو انہوں نے سر ہلا کر دے دی۔
”ہاں واقعی کافی پیاری کُرتی ہے“ اور بسمہ کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ وہ کیا بتاتی کہ یہ سوٹ کیا سوچ کے لیا تھا۔ ایک دفعہ پہلے بھی اس نے اپنی نمائش لگائی تھی اب دوبارہ شاید یہی ہونے جارہا تھا۔ ایسا نہ بھی ہو مگر اسے ایسا ہی لگ رہا تھا۔ جیسے اس کی ذات مردوں کے سامنے پیش کی جارہی ہو۔ جو تذلیل اسلم کے رویئے سے محسوس ہوئی تھی وہی آج یہی سوٹ پہن کر تیار ہونے کے مشورے پہ محسوس ہوئی۔ اسے فائزہ کی جو بات تب سمجھ نہیں آئی تھی اب سمجھ آگئی۔ جب اس نے کہا تھا بسمہ خدا کے لیے خود کو نمائش کی چیز نہ بنا۔ وہ چپ کھڑی تھی۔ اتنے میں دادی اندر آگئیں ”ارے کیوں دیر لگا رہی ہو لڑکیو، نکال چکو کپڑے تو یہ تیار ہو۔ “
دادی یہ دیکھیں یہ سوٹ پیارا لگے گا نا ہماری بسمہ پہ ”
بشریٰ آپی نے انہیں بھی دکھایا
”پاگل ہوگئی ہو کیا؟ یہ سیاہ رنگ آج پہناؤ گی بی بی خوشی کے موقع پہ ایسے رنگ نہیں جچتے نا ہمیں راس آتے ہیں۔ فوراً رکھو اسے کوئی شوخ رنگ نکالو“
بسمہ نے سکون کا سانس لیا۔ سوٹ تو بدل گیا مگر آگہی کا جو نیا در کھلا وہ ابھی کھلا ہی تھا۔
مہمان آئے بھی اسے دیکھ کے چلے بھی گئے کافی خوش اور مطمئین بھی لگ رہے تھے مگر بسمہ کو مسلسل اپنا آپ دکان پہ سجے مال جیسا لگتا رہا۔ اس کو ہر ہر پہلو سے جانچا گیا کردار پرکھا گیا۔ بس شاید دانت گننے کی کسر رہ گئی۔ یہ خیال آتے ہی اس کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ آگئی۔ وہ اب کمرے میں بیٹھی چوڑیاں اتار رہی تھی۔ دادی اب امی کے کمرے میں تھیں جہاں سب بڑے بیٹھے فیصلہ کر رہے تھے۔ تبھی بشریٰ آپی کمرے میں آئیں۔
”بسمہ! کہاں گم ہو ابھی تو تم نے اپنے اُن کو دیکھا بھی نہیں“ بسمہ کو ان کا انداز عجیب لگا ایسی بے تکلفی تو کبھی نہیں تھی اُن سے۔
”یہ لو دیکھ لو ہمارے دولہا بھائی کیسے ہیں“ بشریٰ آپی اسے نے ایک تصویر پکڑا دی اور واپس مڑ گئیں۔
تصویر لینے اور ان کے جانے تک کی ذرا سی دیر میں اسے یہ تو اندازہ ہوگیا کہ فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی تصویر پہ نظر ڈالی۔
پچیس چھبیس سال کا کافی خوبرو لڑکا جو کیمرے میں دیکھ کے مسکرا رہا ہوگا مگر بسمہ کو لگا اسی کو دیکھ رہا ہے۔
کافی دیر میں پہلی بار اسے خوشگوار احساس ہوا۔