آج تو شدید سردی تھی۔ زوار صاحب ہیلمنٹ اُتارتے ہوئے ثانیہ سے بولے۔ خیر میرے خیال میں کھانے پینے کا سامان تو پورا لے ہی آیا ہوں۔
ثانیہ آپ بھی تو حد کرتے ہیں۔ گاڑی پہ چلے جاتے یا پڑوس کے لڑکے عامر سے کہتی وہ لے آتا۔ ویسے بھی تو جب بلائیں کام کے لیے آ ہی جاتا ہے۔
وہ بات ٹھیک ہے جب تک میں بائیک چلا سکتا ہوں تو خود خود سامان لاؤں گا اور جہاں تک بات ہے گاڑی کی تو بیگم میں گاڑی کا کیا کروں گا۔ وہ تو میں نے اپنے پیارے بیٹے کے لئے سنبھال کر کھڑی کی ہوئی ہے۔ بس تم دعا کرو آج ہمارے بچے ہم سے خوش ہو کر اپنے گھروں کو جائیں یہ کہتے ہوئے۔ زوار صاحب تھوڑے آبدیدہ ہوگئے
لیکن ثانیہ ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط عورت بھی تھی۔ شوہر کی بات کا جواب دیتے ہوئے تو کیا ہوا اگر راضی نہ بھی ہوئے تو ہم نے ان کی خوشی کی خاطر ساری زندگی لگا دی۔ نہیں ہوتے راضی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ آپ نے اپنا فرض ادا کیا۔ ساری زندگی محنت کی بچوں کو پڑھایا، اچھی زندگی دی، اچھی ملازمت کروائی، معاشرے میں نمایاں مقام دیا۔ ان سب کے باوجود انہیں ہماری قربانیاں اور پیار نظر نہیں آ تا تو اب اور ہم زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
ان کے دو بچے رازیہ اور بیٹا عدنان تھا۔ دونوں اچھے گھربار چلا رہے تھے لیکن ماں باپ کو سکون نہ دیتے۔ بیٹا کہتا کہ سب بیٹی کو دیتے ہیں اور بیٹی کہتی سب جائیداد اور آ مدن بیٹے کو کھلا رہے ہیں۔
حالانکہ والدین نے دونوں کو برابر حق سے جائیداد تقسیم کر دی تھی۔
اب گھر، گاڑی اور دکانوں کا کرایہ اور زوار صاحب کی پینشن بچی تھی۔ جو وہ ہر مہینے اپنے بچوں اور ان کی اولادوں کے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر بھجواتے تھے۔ اور خود گزارے والی زندگی بسر کرتے تھے لیکن ان کے بچے یہ سب بھلا کر صرف طعنے ہی دے کر چلے جاتے تھے۔ یہ نہ پوچھتے کہ طبیعت کیسی ہے، کہیں اداس تو نہیں ہیں۔ دوائی وقت پر لیتے ہیں کے نہیں۔ معمول کے مطابق بیٹا بیٹی چھٹی والے دن اپنے بچوں کے ساتھ آجاتے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہوتا ہے دونوں ماں سے اپنی اپنی پسند کے کھانے سوال کرتے ہیں کہ بنی ہے کہ نہیں۔
عدنان اماں میرے بچوں کے لیے جوسز منگوائے ہیں؟ رازیہ ماں ایمن کی چاکلیٹس آگئی کیا؟ لیکن مجال ہے کہ کسی کو خیال آیا ہو کہ اماں ابا آپ دونوں کیسے ہو؟ جلدی کھانا لگوائیں ایک چھٹی ہوتی ہے اور وہ بھی آ پ سے ملنے آ جاتے ہیں۔ ہمیں اور بھی کچھ کام ہیں مرکیٹ کے۔ ماں خوشی سے کھانا لگوائیں ہیں کہ اولاد ماں کے بنے کھانے کی تعریف کرے گی۔ مگر اس خودغرض اولاد میں سے کوئی بھی مامتا کو نہ ڈھونڈ پایا جوکہ اکثر کھانوں کی لذت میں چھپی ملتی ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے زوار صاحب بیٹا پچھلے ہفتے سے میری طبیعت ٹھیک نہیں۔
عدنان تو ابا آ پ کو پتا ہے میں کتنا مشکل سے وقت نکال کر یہاں تک آ یا ہوں۔ آ پ ہسپتال تک تو خود جا ہی سکتے ہیں۔ جائیں اپنا چیک آپ کروائیں میرے پاس تو اتنا وقت نہیں کہ بچوں کو آؤٹنگ پر لے جاؤں۔
یہ سن کر ثانیہ بہت افسردہ ہوتی ہے اور کہتی ہے بیٹا آ پ فکر نہ کریں کل ہم دونوں ساتھ جائیں گے چیک اپ کروانے۔ رازی کھانے کے بعد ابا میری گاڑی میں سارا سامان رکھوا دیا ہے نا؟
پچھلی بار بھی عدنان کو زیادہ فروٹس، جوسز رکھوا دیے تھے۔ جس سے میرے شوہر نے مجھے کافی باتیں سنائیں کہ آپ میرے ساتھ فرق کرتے ہیں۔
پر بیٹا میں تم دونوں کے لیے برابر کی سبزیاں، پھل اور باقی سامان رکھواتا ہوں۔
جو بھی ہے بابا اگر اس بار فرق ہوا تو میں نہیں آیا کروں گی۔ نہ ہی اتنا وقت ہوتا ہے میرے پاس۔
بالکل اسی طرح اب کی بار عدنان غصے سے سامان لے کر نکل جاتا ہے کہ رازیہ کو زیادہ دیتے ہیں۔ پورے گلی محلے والے اس صورتحال سے واقف ہوتے ہیں اور اپنے بچوں باقی دوستوں کو زوار صاحب اور ثانیہ کی مثالیں دیتے ہیں کہ کیسے ساری زندگی محنت، مشقت بچوں کو پالا پوسا معاشرے میں اچھا مقام دیا اور اسی اولاد نے مشکل میں والدین کو تنہا چھوڑ دیا کہ والدین کے ساتھ اس پرانے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ رازیہ اور عدنان کو اپنے ان بچوں کی فکر تھی۔ جنہوں نے ابھی بولنا تک نہ سیکھا لیکن والدین کی فکر نہیں تھی جن کی وجہ سے آج وہ ایک اچھے مقام تک پہنچے تھے۔