اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک یا معاشرے میں کوئی بھی باعزت پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں چاہے آپ ڈاکٹر بننا چاہیں یا انجینئر ’نرس بننا چاہیں یا وکیل‘ سوشل ورکر بننا چاہیں یا استاد تو آپ کو پہلے سکول ’کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے پھر امتحان پاس کر کے لائسنس لینا پڑتا ہے اور پھر آپ کو وہ کام کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا کے دو سب سے اہم کام ایسے ہین جن کے لیے نہ تعلیم کی ضرورت ہے نہ ڈگری کی اور نہ ہی لائسنس کی اور وہ دو کام ہیں والدین بننا اور سیاستدان بننا سیاستدان بننے کے بارے میں ہم کسی آئندہ کالم میں تب…
آج تو شدید سردی تھی۔ زوار صاحب ہیلمنٹ اُتارتے ہوئے ثانیہ سے بولے۔ خیر میرے خیال میں کھانے پینے کا سامان تو پورا لے ہی آیا ہوں۔ ثانیہ آپ بھی تو حد کرتے ہیں۔ گاڑی پہ چلے جاتے یا پڑوس کے لڑکے عامر سے کہتی وہ لے آتا۔ ویسے بھی تو جب بلائیں کام کے لیے آ ہی جاتا ہے۔ وہ بات ٹھیک ہے جب تک میں بائیک چلا سکتا ہوں تو خود خود سامان لاؤں گا اور جہاں تک بات ہے گاڑی کی تو بیگم میں گاڑی کا کیا کروں گا۔ وہ تو میں نے اپنے پیارے بیٹے کے لئے سنبھال کر کھڑی کی ہوئی ہے۔ بس تم دعا کرو آج ہمارے بچے ہم سے خوش ہو کر اپنے گھروں کو جائیں یہ کہتے ہوئے۔ زوار صاحب ت…
ایک وہ زمانہ تھا جب میں سوچا کرتا تھا کہ بیٹیاں اپنے باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں۔ باپ بیٹیوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کا بیٹوں سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ میراخیال تھا کہ کئی دفعہ باپ بیٹے کے درمیان تضاد ہوتا ہے اور باپ بیٹوں سے ناراض ہوتے ہیں بیٹیوں سے نہیں لیکن پھر میری ایک ایسی ماں سے ملاقات ہوئی جس نے میرے باپ بیٹی کی اٹوٹ محبت کے تصور کو چیلنج کیا کہنے لگی ’ڈاکٹر سہیل! میری جوان بیٹی اپنے باپ سے ناراض رہتی ہے۔ کئی کئی دن بات نہیں کرتی۔ اب اس کی ناراضگی بڑھتے بڑھتے نفرت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ‘ میں نے جب پوچھا کہ آخری بار اس نے اپن…
سرکار آبادی کم کرنے کا مشورہ دینے کی کتنی بھی وجوہات پیش کرے لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ آبادی اس لیے بھی کنٹرول کر لینی چاہیے تاکہ اس قوم کے بچوں کو مزید کنفیوز اور پریشان ہونے سے بچایا جا سکے۔ وہ زمانہ گیا جب کسی بچے سے پوچھا جاتا تھا کہ بیٹا کتنے بہن بھائی ہو؟ تو وہ جھٹ ان کی تعداد اور فر فر نام بھی گنوا دیا کرتا تھا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ دو چار سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو اب بچے نہ صرف تعداد بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں بلکہ اکثر درست تعداد اور بہن بھائیوں کے نام تک بھول جاتے ہیں۔ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں غلط بیانی کر رہی ہوں یا پھر کوئ…
انتباہ: اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں بارہ سالہ بچی نے کاؤنسلرز کو بتایا کہ دو سال تک ہر ہفتے مرد اس کے گھر آتے اور اس کا ریپ کرتے۔ چند افراد سے اس کے والد کی جان پہچان تھی اور کچھ بالکل انجان تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سب کی شروعات تب ہوئی جب میرے والد اپنے دوستوں کو گھر پر شراب پینے کے لیے مدعو کرنے لگے۔ شراب کے نشے میں دھت مرد ان کے والدین کے سامنے انھیں چھیڑتے اور چھوتے۔ کبھی کبھار مرد ان کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر کے واحد پھپھوند کی بو سے بھرے بیڈروم میں غائب ہو جاتے۔ پھر ایک دن، بچی نے یاد کرتے ہوئے…
Social Plugin