بارہ سالہ بچی نے کاؤنسلرز کو بتایا کہ دو سال تک ہر ہفتے مرد اس کے گھر آتے اور اس کا ریپ کرتے۔ چند افراد سے اس کے والد کی جان پہچان تھی اور کچھ بالکل انجان تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سب کی شروعات تب ہوئی جب میرے والد اپنے دوستوں کو گھر پر شراب پینے کے لیے مدعو کرنے لگے۔
شراب کے نشے میں دھت مرد ان کے والدین کے سامنے انھیں چھیڑتے اور چھوتے۔ کبھی کبھار مرد ان کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر کے واحد پھپھوند کی بو سے بھرے بیڈروم میں غائب ہو جاتے۔
پھر ایک دن، بچی نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد نے ان کو اپنے ایک دوست کے ساتھ بستر پر دھکیل دیا اور باہر سے دروازہ بند کر دیا۔ اُس مرد نے بچی کا ریپ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے
جلد ہی بچی کا بچپن بھیانک خواب بن گیا۔ ان کے والد نے مردوں کو کال کر کے ان کی مردوں کے ساتھ بکنگ شروع کر دی اور بدلے میں پیسے وصول کرنے لگے۔
کاؤنسلرز کا ماننا ہے کہ تب سے اب تک کم از کم 30 مردوں نے بچی کا ریپ کیا ہے۔
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے حکام نے 20 ستمبر کو بچی کے اساتذہ کی طرف سے ملنے والی خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوتے ہوئے بچی کو سکول سے بازیاب کرایا اور محفوظ مقام پر لے گئے۔
حکام کے مطابق طبی جانچ سے ریپ ثابت ہوا۔
ان کے والد سمیت چار افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ایک بچی کو پورنوگرافک مقاصد اور جنسی تشدد کے لیے استعمال کرنے پر تمام افراد پر ریپ کی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ ان تمام لوگوں کی ضمانت مسترد کر دی گئی ہے۔
پولیس پانچ مزید افراد کو ڈھونڈ رہی ہے جن کی بچی کے والد کے ساتھ جان پہچان ہے اور انھوں نے بچی کے ساتھ مبینہ ریپ اور زیادتی کی ہے۔
تفتیش کاروں نے 25 ایسے مردوں کے ناموں اور تصاویر پر مبنی فہرست مرتب کی ہے جنھیں خاندان نے بچی سے ملوایا۔
بچی نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’مجھے ایک بھی شکل یاد نہیں ہے۔ سب کچھ دھندلا ہے۔‘
خاندان جنوبی انڈیا میں سرسبز پہاڑیوں، صاف ہوا اور تازے پانی کی ندیوں کے لیے مشہور اچھے خاصے خوشحال قصبے میں رہتا تھا۔ لیکن قصبے کی خوشحالی بچی کے خاندان کو چھو کر بھی نہ گزری۔
ستمبر میں سکول کو ان چند اساتذہ کی طرف سے شکایت ملی جو بچی کے پڑوس میں رہتے تھے۔
وہ کہنے لگے ’بچی کے خاندان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور اس کے گھر میں کچھ چل رہا ہے۔ اس سے بات کرنے کی کوشش کریں۔‘
سکول کی انتظامیہ نے فوراً خواتین کی مدد کے لیے بنائے گئے گروپ کی ایک کاؤنسلر کو بلایا۔ اگلے ہی روز کاؤنسلر سکول آئیں۔
بچی اور کاؤنسلر سٹاف روم میں آمنے سامنے بیٹھے۔ اوپر کے کمرے میں بچی کی والدہ نے اس سب سے بے خبر ہو کر معمول کی اساتذہ اور والدین کی میٹنگ میں حاضری دی۔
کاؤنسلر نے بچی سے پوچھا ’مجھے اپنے خاندان اور اپنی زندگی کے بارے میں بتاؤ۔‘
انھوں نے چار گھنٹوں تک بات کی۔
بچی نے بتایا کہ گھر پر اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے والد بے روزگار ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے انھیں کسی بھی وقت گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔ بچی نے سسکیاں بھرنا شروع کر دیا۔
پھر وہ چپ ہو گئی۔ کاؤنسلر نے انھیں سکول میں ہونے والی صنف کی کلاسز کے بارے میں بتایا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کتنی عام ہو چکی ہے۔
بچی نے اچانک بات کاٹتے ہوئے بولا ’میرے گھر میں بھی کچھ ہو رہا ہے۔ میرے والد میری والدہ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔‘
کاؤنسلر نے تفصیلات پوچھیں۔
وہ کہنے لگیں کہ ایک بار ان کی والدہ سے ملاقات کرنے کے لیے آئے مرد نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ ان کی والدہ نے اس مرد کو انکار کیا تھا۔ بچی کے مطابق جب وہ سکول پر ہوتی تو کئی مرد اس کی والدہ سے ملنے آتے۔
پھر گھر آنے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ رات گئے تک شراب کے دور ختم ہونے کے بعد مرد انھیں جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بناتے۔
کاؤنسلر نے سوال کیا کہ کیا وہ مانع حمل ادویات کے بارے میں جانتی ہیں جو حمل اور جنسی بیماریوں سے بچنے میں مدد کرتی ہیں۔
بچی نے کہا ’نہیں، نہیں، ہم کنڈوم استعمال کرتے ہیں۔‘
بات چیت کے دوران یہ پہلی بار تھی کہ انھوں نے سیکس کرنے کا اقرار کیا۔
اس کے بعد بچی نے اپنا بچپن چھننے کی دل دہلا دینے والی داستان سنائی۔
انھوں نے بتایا کہ ’مرد آتے اور میری والدہ کو بیڈروم میں لے جاتے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ عام سی بات ہے۔ لیکن پھر میرے والد نے مجھے انجان مرد کے ساتھ کمرے میں دھکیل دیا۔‘
کبھی کبھار ان کے والد ان کو اپنی کوئی برہنہ تصاویر اتار کر ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے مردوں کو بھیجنے پر مجبور کرتے۔
اس سال کے آغاز میں ان کے والدین پریشان ہو گئے جب انھیں تین ماہ کے لیے ماہواری نہیں آئی۔ وہ انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے ان کا الٹراساؤنڈ کیا اور کچھ ادویات کا نسخہ دیا۔
اب تک کاؤنسلر کو یقین آ چکا تھا کہ بچی سیریل ریپ کا شکار بنی ہے۔ انھوں نے بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے افسران کو بلایا اور بچی کو بتایا کہ اسے محفوظ مقام پر لے جایا جائے گا۔
بچی بالکل حیران پریشان نہ ہوئی۔
لیکن اساتذہ سے ملاقات کے بعد جب والدہ نے دیکھا کہ بیٹی کو کار میں لے کر جا رہے ہیں تو وہ چلانے لگیں۔
’آپ میری بیٹی کو کیسے لے جا سکتے ہیں؟‘
کاؤنسلر نے انھیں بتایا کہ بچی کو ’کچھ جذباتی مسائل‘ درپیش تھے اور ان کے علاج کے لیے اسے لے جایا جا رہا ہے۔
’آپ کون ہوتے ہیں میری اجازت کے بغیر میری بیٹی کا علاج کرنے والے؟‘
گذشتہ دو ماہ سے بچی جنسی تشدد کی شکار باقی لڑکیوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔
بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے حوالے سے انڈیا کا ریکارڈ شرمناک ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق زیادہ تر واقعات میں ملوث افراد متاثرین کے رشتہ دار، پڑوسی اور آجر ہوتے ہیں۔
سنہ 2017 میں انڈیا میں بچوں کے ساتھ رپورٹ ہونے والے ریپ کے واقعات کی تعداد 10221 تھی۔ حالیہ برسوں میں ملک میں بچوں کے خلاف جرائم میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔
کاؤنسلرز کے مطابق اس قسم کے ہولناک واقعات غیرمعمولی بات نہیں ہے۔
جس پناہ گاہ میں بچی کو رکھا گیا ہے وہاں 12 سے 16 سال کی تین لڑکیاں ایسی ہیں جنھیں ان کے والد نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک کاؤنسلر کا کہنا ہے کہ انھوں نے 15 سالہ حاملہ لڑکی کو کمرہ امتحان پہنچایا تھا جسے اس کے والد نے ریپ کیا۔
کاؤنسلر نے بتایا ’ہم نے لڑکی سے پوچھا اگر وہ بچہ پیدا کرنے کے بعد چھوڑ دے گی۔ تو اس نے کہا کہ میں اپنا بچہ کیوں دوں؟ یہ میرے والد کا بچہ ہے۔ میں بچے کی پرورش کروں گی۔‘
اس رپورٹ میں شامل مرکزی بچی پہلے کچھ دن تو پناہ گاہ میں کافی دیر تک سوتی رہی لیکن پھر اس نے بے پرواہی سے لکھا کہ وہ اپنی ’اماں‘ سے کتنی محبت کرتی ہے۔
بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے ’(ریپ کی) کہانی گھڑی کیونکہ وہ ہم سے لڑ رہی تھی اور ہمیں سبق سکھانا چاہتی تھی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ایک وقت ایسا تھا جب حالات اتنے برے نہیں تھے۔ کبھی کبھار ان کے شوہر ایک دن میں 2000 روپے کما لاتے تھے۔ اب گھر میں وہ اکیلی رہتی ہیں۔ ان کے شوہر جیل میں مقدمے کی شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کی بیٹی پناہ گاہ میں ہے۔
بچی کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا ’میں ایک خیال رکھنے والی ماں ہوں۔ اسے میری ضرورت ہے۔‘
میل سے اٹی دیواروں پر سے پینٹ اتر رہا ہے۔ بچی کی غیر موجودگی میں، گھر کی دیواروں پر ان کی بیٹی کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔
والدہ نے بتایا ’وہ دیواروں پر لکھتی اور نقش بناتی رہتی۔ بس وہ یہی کیا کرتی تھی۔‘
بچی نے یہ لکھ کر کاغد دیوار پر چسپاں کیا ہوا تھا ’دوستوں۔ اگر میں اپنے اندرونی جذبات کھل کر بیان کر پاؤں تو اپنے آپ میں بہت بڑی کامیابی ہو گی۔‘
چند ماہ پہلے ماں اور بیٹی کی لڑائی ہوئی تھی۔
جب بچی سکول سے واپس آئی تو اس نے نیلے رنگ کا چاک اٹھایا اور گھر کے مرکزی دروازے پر کھجور کا درخت اور ایک گھر بنایا جس کی چمنی سے دھواں نکل رہا تھا۔ اس عمر کی بہت سی لڑکیاں تصورات سے ایسی ہی تصاویر بناتی ہیں۔
پھر اس نے دروازے پر جلدی سے معافی نامہ لکھا اور باہر چلی گئی۔
بچی نے لکھا ’معاف کر دینا، اماں!‘