کیا آپ بغیر سوچے سمجھے ماں باپ بن گئے تھے؟

 

اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک یا معاشرے میں کوئی بھی باعزت پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں چاہے آپ ڈاکٹر بننا چاہیں یا انجینئر ’نرس بننا چاہیں یا وکیل‘ سوشل ورکر بننا چاہیں یا استاد تو آپ کو پہلے سکول ’کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے پھر امتحان پاس کر کے لائسنس لینا پڑتا ہے اور پھر آپ کو وہ کام کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا کے دو سب سے اہم کام ایسے ہین جن کے لیے نہ تعلیم کی ضرورت ہے نہ ڈگری کی اور نہ ہی لائسنس کی اور وہ دو کام ہیں

والدین بننا اور سیاستدان بننا

سیاستدان بننے کے بارے میں ہم کسی آئندہ کالم میں تبادلہ خیال کریں گے اس کالم میں آج ہم ماں باپ بننے کے بارے میں کچھ غور کرتے ہیں۔

دنیا کے کسی شہر میں کوئی بھی جوان عورت اور مرد جب چاہتے ہیں ماں باپ بن جاتے ہیں اور ایک نئی زندگی کو اس دنیا میں لے آتے ہیں۔ میں نے تو کمسن بچوں اور بچیوں تک کو ماں باپ بنتے دیکھا ہے۔

میری نگاہ میں والدین بننا دنیا کی سب سے زیادہ اہم ذمہ داری ہے۔ امریکہ کے صدر کی ذمہ داری سے بھی زیادہ اہم کیونکہ امریکہ کا صدر تو چار یا آٹھ برس کے بعد وائٹ ہاؤس چھوڑ کر گھر چلا جاتا ہے لیکن والدین بننا ایسی ذمہ داری ہے جو عمر بھر نبھانی پڑتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھے اور برے والدین میں کیا فرق ہے؟
اچھے والدین کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
اور جو والدین اپنی ذمہ داریوں سے احتراز یا کوتاہی کرتے ہیں ان کے ساتھ ہمیں کیسا سلوک کرنا چاہیے؟
ہر ملک اور معاشرے میں ان سوالوں کے جواب مختلف ہیں۔

کینیڈا کے قانون کے مطابق اگر کسی خاندان کے والدین کے خلاف حکومت کو کسی استاد یا پرنسپل یا ہمسائے یا رشتہ دار سے یہ شکایت ملے کہ کوئی بچہ والدین کی عدم توجہی اور NEGLECTکا یا جارحیت اور ABUSEکا شکار ہے تو حکومت کے ادارے چلڈرنز ایڈز سوسائٹی کی ایک سوشل ورکر اس گھر میں جا کر والدین اور بچوں کے انٹرویو لیتی ہے اور اگر واقعی بچے کی تربیت صحیح نہیں ہو رہی یا وہ ظلم اور زیادتی کا شکار ہے تو وہ سوشل ورکر پہلے ان والدین کو بہتر والدین بننے کی مدد کرتی ہے اور اگر وہ پھر بھی بچوں کا صحیح خیال نہیں رکھ پاتے تو وہ ان بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر کے کسی فوسٹر ہوم میں بھیج دیتی ہے جہاں بچوں کا مناسب خیال رکھا جاتا ہے۔

کسی بچے یا بچی کے لیے کس قسم کا فوسٹر ہوم مناسب ہو گا یہ ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے۔

بچے اپنے والدین کو دیکھ دیکھ کر بہت کچھ سیکھتے ہیں کیونکہ والدین بچوں کا رول ماڈل ہوتے ہیں۔ وہ بچے جنہیں بدقسمتی سے جابر و ظالم یا لاپروا و غیر ذمہ دار والدین ملتے ہیں ان میں سے نجانے کتنے بڑے ہو کر خود اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں۔

ذمہ دار والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحتمند خطوط پر تربیت کریں ان کی خفیہ صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں ذمہ دار شہری بننے میں مدد کریں تا کہ وہ جوان ہو کر قوم و معاشرے کی خدمت کر سکیں۔ جب ایک بچہ جوان ہو کر عاقل و بالغ مرد یا عورت بن جاتا ہے اور اپنی انفرادی و سماجی ذمہ داریاں قبول کر لیتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے والدین نے اپنی خاندانی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی۔

میں نجانے کتنے ایسے والدین سے مل چکا ہوں جو اپنے جوان بچوں کو بھی اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دیتے چاہے وہ پیشے کا فیصلہ ہویا شریک حیات چننے کا فیصلہ۔

میں آپ کو اپنی نوجوانی کا ایک اہم واقعہ سناؤں ایسا واقعہ جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جب میں ایڈورڈز کالج پشاور میں پڑھا کرتا تھا ان دنوں ہمارے پرنسپل آسٹریلیا کے استاد فل ایڈمنڈز تھے۔ ایک دن وہ ہمیں پڑھانے آئے تو بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ کل میرا بیٹا انگلینڈ سے سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر لوٹا ہے میں اس لیے بہت خوش ہوں۔ ایک طالبعلم نے پوچھا

’سر! کیا اب آپ اس کے لیے دلہن تلاش کریں گے؟‘
فل ایڈمنڈز کے بزرگ چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ پھیل گئی پھر وہ کہنے لگے

’میرا بیٹا اپنے لیے خود ہی دلہن تلاش کر لے گا اور اگر وہ اپنے لیے شریک حیات تلاش نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب ہے وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔ ‘

میں بہت سے ایسے جوانوں اور نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے والدین کے کہنے پر اپنے پیشے اور شریک حیات کا چناؤ کیا اور جب وہ ناکام ہوئے تو انہوں نے اپنے والدین کے سر سارا الزام ڈال دیا۔

میری نگاہ میں عاقل و بالغ مرد اور عورتیں اپنے زندگی کے اہم فیصلے خود کرتے ہیں اور اگر وقت ان فیصلوں کو غلط ثابت کرے تو وہ پھر ان فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

جو والدین اپنے جوان بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنا سکھا دیتے ہیں وہ جیتے جی بے فکر ہو جاتے ہیں لیکن جن والدین کے بچے دانشمندانہ فیصلے نہیں کر سکتے وہ ساری عمر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ان جوان بچوں کا کیا ہو گا؟

اپنی زندگی کے اہم کاموں کے خود فیصلے کرنا ذہنی بلوغت کی اور کسی اور کے مشوروں پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرتے رہنا چاہے وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں ذہنی نا بالغی کی نشاندہی کرتا ہے۔

کامیاب والدین جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد والدین اور بچوں کے رشتوں کو PARENT CHILD RELATIONSHIP سے ADULT TO ADULT RELATIONSHIP میں تبدیل کرنا ہے۔

ذہنی بالغ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بزرگ والدین سے مشورہ نہ کریں اور ان کے مفید اور سود مند مشورے نہ مانیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم مشورے کے بعد اپنی سوچ سمجھ کے مطابق فیصلے کریں اور پھر ان فیصلوں کی ذمہ داری قبول کریں۔

میں بہت سے ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو شادی نہیں کرنا چاہتے تھے یا شادی تو کرنا چاہتے تھے لیکن اس عورت سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی والدہ نے کہا اگر اس عورت سے شادی نہ کی تو میں دودھ معاف نہیں کروں گی یا والد نے کہا اگر اس عورت سے شادی نہ کی تو میں تمہیں عاق کردوں گا۔ میری نگاہ میں والدین کا ایسا کرنا ایموشنل بلیک میلنگ کہلایا جا سکتا ہے۔

ہر جوان مرد اور عورت کا یہ انسانی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا پیشہ اور شریک حیات تلاش کرے اور ایک خوشحال خاندانی زندگی گزارے۔

میری نگاہ میں ماں باپ بننے کا اور کسی نئے انسان کو اس دنیا میں لانے کا فیصلہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر سب سے اہم فیصلہ ہے کیونکہ اس پر قوم کے مستقبل کا انحصار ہے۔ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔

جانوروں اور انسانوں میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ جانور اپنی جبلت پر عمل کرتے ہوئے بچے پیدا کرتے ہیں جبکہ انسانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ کس عمر میں کتنے بچے پیدا کریں۔ جو مرد اور عورتیں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے ماں باپ نہیں بن سکتے انہیں شادی کے بعد بھی بچے نہیں پیدا کرنے چاہئیں۔ میری نگاہ میں غیر ذمہ دار ماں باپ بن کر کسی بچے کی زندگی کو داؤ پر لگانے سے بہتر ہے کہ غیر ذمہ دار شادی شدہ جوڑے بچے نہ پیدا کریں۔ مغرب میں بعض شادی شدہ جوڑے ماں باپ بننے سے پہلے parenting classes لیتے ہیں۔ میں ایسے مردوں سے اتفاق نہیں کرتا جو اپنے بچوں کی تمام تر ذمہ داری ان کی ماں پر ڈال دیتے ہیں۔

میری نگاہ میں بچے کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے ہمیں دو والدین چاہیے بلکہ پورا گاؤں چاہیے کیونکہ کسی نے کہا ہے IT TAKES THE ڈبلیو ایچ او LE VILLAGE TO RAISE A CHILD
آپ سے رخصت لینے سے پہلے میں آپ کو بچوں کے بارے میں اپنی ایک غزل کے تین اشعار سناتا جاؤں
وہ جس کسی کی بھی آغوش جاں کے بچے ہیں
نوید صبح ہیں سارے جہاں کے بچے ہیں
چمن کا اس سے بڑا المیہ بھی کیا ہو گا
جو پھول توڑتے ہیں باغباں کے بچے ہیں
طلاق یافتہ ماں باپ کے حسیں بچے
کبھی تو باپ کبھی اپنی ماں کے بچے ہیں