ایک بزرگ ادیب نے ایک مرتبہ سمجھایا تھا کہ حق و باطل کی جنگ کو المیہ یا ٹریجڈی نہیں کہا جا سکتا۔
اصل ٹریجڈی تب ہوتی ہے جب دونوں طرف جنگ لڑنے والے حق پر ہوں۔
تحریکِ لبیک کی اسلام آباد پر یلغار روکنے کے لیے جو پولیس اہلکار اور اب رینجرز گھروں سے نکلے ہیں، وہ بھی یا رسول اللہ کا ورد کرتے نکلے ہیں اور تحریکِ لبیک کے جو کارکن ساری رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں، اُن کے دل بھی حبِ رسول سے بھرے ہیں۔
ماضی کی باتیں یاد کروانے کا کوئی فائد نہیں، لیکن کل جو اُنھیں آگ لگا دو، جلا دو کا درس دیتے تھے، وہ بھی رسول کے عاشق تھے اور جو اُن کو لفافے دے کر گھر بھیجتے تھے، ان کے دل میں بھی عشقِ رسول تھا۔
جنھوں نے اُنھیں کالعدم قرار دیا، اُن کے ایمان پر بھی کوئی شک نہیں، جنھیں کہا کہ چلو الیکشن لڑو، وہ بھی حرمتِ رسول کے پاسبان ہیں۔
آخر تحریکِ لبیک کون سا ایسا مطالبہ کر رہی ہے جو ریاست خود پہلے اپنے شہریوں سے اور پوری دنیا سے نہیں کر چکی۔
پاکستان میں کون سا مسلمان (اور اکثر غیر مسلم بھی) ایسا ہے جو یہ نہیں کہے گا کہ ناموسِ رسالت پر اُس کی جان بھی قربان ہے۔
ابھی چند دن پہلے ہی ملک میں عید میلاد النبی منایا گیا، اور ایسی شان سے منایا گیا کہ دنیا دنگ رہ گئی ہو گی۔
ہم نے حور کی پریڈ کروائی، سڑکوں پر شیطان کا ناچ کروایا، اسلام آباد میں کوئی ایک ایکڑ بڑا کیک کاٹا گیا۔
بجلی نہ ہونے یا مہنگی ہونے کا رونا رونے کے باوجود پورا ملک روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔
اگر کچھ اداروں سے غفلت ہوئی اور وہ اپنی عمارتوں پر چراغاں نہ کر سکے تو اُن کے خلاف تادیبی کارروائی ہوئی۔
اگر 12 ربیع الاوّل کو خلد سے کوئی دنیا کو دیکھتا تو وہ یہی سوچتا کہ دنیا میں مسلمان ملک تو اور بھی ہیں لیکن صرف پاکستان ہی عشقِ رسول کی روشنی سے جگمگا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے نوجوانوں کو خوش خبری دیتے ہوئے رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ ریاستِ مدینہ میں جرنیلوں کی ٹپس بھی دیں۔
کچھ سنکی تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا کہ اتنا دھوم دھڑکا کر کے حکومت تحریکِ لبیک کے ووٹ بینک پر ڈاکہ مارنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ عشق کے ووٹ بینک کی چوری نہیں ہو سکتی۔
یاد رکھیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں جی ایچ کیو کے کسی گیٹ کی پیداوار ہوں یا عوامی اُمنگوں کی، وہ کسی نہ کسی دنیاوی ایجنڈے کی بات کرتی ہیں۔
لیکن تحریکِ لبیک جی ٹی روڈ پر اس لیے قابض نہیں ہے کہ وہ سستا پیٹرول چاہتے ہیں یا کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کو چوراہوں پر پھانسی دینا چاہتے ہیں۔
وہ جنرل باجوہ کے حق میں نکلے ہیں نا ہی عمران خان کے خلاف۔ اُن کا ہدف اسلام آباد سے بھی آگے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی گستاخی ہوئی تو ہم اُ کا حساب برابر کریں گے اور جو یہ کہتا ہے کہ تمہارے احتجاج سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے یا ملک کی دنیا میں بدنامی ہوتی ہے تو وہ بھی گستاخ ہے، اور وہ گستاخ چاہے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنانے والا وزیرِ اعظم ہی نہ ہو جو دنیا کے 192 ممالک کے سامنے ہمارے حساس جذبات کی ترجمانی کر چکا ہو۔
وزیرِ داخلہ جو اپنے آپ کو سب سے بڑا عاشقِ رسول قرار دیتے ہیں، اب تحریکِ لبیک کو ریاست کی رٹ پار کروا رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ کہہ کر اپنی انشورنس پالیسی بھی خرید رہے ہیں کہ وہ دنیا کے چھ مسلمانوں میں سے ایک ہیں جو خانہ کعبہ میں نماز پڑھ چکے ہیں۔ بلکہ بقول اُن کے، ایک مرتبہ تو اُنھیں خانہ کعبہ میں داخل کر کے پھول بھی دیے گئے۔
ٹھنڈے دل والے عاشق یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ علما سے رجوع کیا جائے۔
ضرور کیا جائے لیکن اکثر علما اور دینی سیاست کرنے والے ابھی تک یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم ساری عمر دین کی خدمت کرتے رہے اور لبیک والے بازی لے گئے۔
کچھ عاشق یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ امامِ کعبہ سے یا سعودی بھائیوں سے مدد مانگی جائے۔
اُن کی بات بھی درست ہے کہ جن شہزادوں سے خرچہ پانی لیتے ہیں اُن سے یہ مشورہ بھی مانگنا بنتا ہے کہ یہ عاشق جو ہمارے عشق کو نہیں مانتے، اُن کا کیا کرنا چاہیے۔
تحریکِ لبیک سے چھ معاہدے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ اللہ کرے کہ ساتواں بھی ہو جائے۔
پچھلے تمام معاہدوں کے بعد تحریکِ لبیک والے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ دعا ہے کہ محبت کا یہ سلسلہ برقرار رہے۔
دریں اثنا حکومت تحریکِ لبیک کی یلغار کو روکنے کے لیے خنق کھود رہی ہے۔
یہ مناظر دیکھ کر دل میں خوف کی لہر سی دوڑ جاتی ہے کہ ریاستِ مدینہ اپنے آپ کو عاشقان سے بچانے کے لیے خندقیں کھودنے پر اتر آئی ہے۔
یہ ڈر بھی لگتا ہے کہ ہم سب عاشقان مل کر خندقیں نہیں بلکہ ایک گڑھا کھود رہے ہیں۔
ہم عشق کے جنوں میں یہ گڑھا کھودتے کھودتے ایک دن زمین کے دوسرے سرے پر کسی غیر معروف جزیرے میں نمودار ہوں گے اور پوچھنا شروع کر دیں گے کہ یہاں گستاخ کون کون ہے۔