بے آسرا مائیں اور بے گھر بیویاں

 

میں اپنی ماں کی وہ چیخ نہیں بھول سکتا جب اس نے مجھے دیکھ کر ماری۔ اس چیخ میں تکلیف اور ضعیفی دونوں کا یکسر ملاپ تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر دیلیز کی طرف بھاگی کہ کسی کو تو اس عمر میں اس کا بھی خیال تھا کہ اس کے سب بیٹوں نے اس کو نہیں چھوڑا تھا۔ ایک ضرور تھا جو اس کی راہ تکتے پانچ دریا پار بھی آخر کو آہی گیا تھا۔
میری ماں نے تب اپنا گھر چھوڑ دیا تھا جب اس نے بہوؤں کو یہ باتیں کرتے سنا کہ وہ اب ان پر بوجھ ہے، جان پر بن بیٹھی ہے۔ باجی معلوم نہیں میری ماں پر کیا گزری ہوگی۔ بے یارو مددگار تھی، خالی ہاتھ بھی تھی، ضعیف تھی مگر خود دار بھی تھی۔ پہلی فرصت میں ٹرین پکڑی اور دور دراز کے آبائی شہر آ بسی۔ اس معاشرے میں عورت کے پاس اپنا گھر یا بٹوے میں روپے نہ ہوں مگر اس کے پاس سلائی مشین ہو تو یہی اس کا آسرا ہوتا ہے۔ سب کے پاس تو سلائی کی مشین بھی نہیں ہوتی، نہ ان کو کوئی یہ ہنر سکھاتا ہے۔ وہ میرے سامنے بس اپنی کہانی بتائے جا رہا تھا۔ اب ہر کسی کے پاس سلائی مشین نہیں ہوتی، نہ ہی ہر لڑکی کو کپڑے سینا آتے ہیں۔ میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس معاشرے میں سلائی مشین ایک عورت کا کتنا بڑا ہتھیار ہے جس کے دم سے مفلسی میں سہی مگر وہ اپنے لئے کما ضرور سکتی ہے۔
 میری ماں کے پاس نصف صدی پرانی ایک سلائی مشین تھی۔ جس کی خاص آواز اس کے قدیم ہونے کی پہلی اور واضح نشانی تھی۔ اس کے بیٹے متمول حیثیت کے مالک تھے مگر ان کی ماں غریب تھی۔ میں وہ وقت نہیں بھول سکتا جب ہم تو امیر تھے مگر ہماری ماں غریب تھی۔ جب وہ جا چکی تو کسی کو پرواہ بھی نہ ہوئی۔
میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا گھر کونسا تھا جہاں وہ غربت مگر خود درای کے ساتھ زندہ تھی۔ تن تنہا، چھوٹا سا کرایہ کا وہ کمرہ نما مکان اور مکان نما کمرہ ہی اس کی کل توقیر تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ یہاں وہ اس قدر مفلس نہ تھی جتنی وہ اپنے صاحب حیثیت ان بیٹوں کے گھر تھی جن کو اس نے اپنے جسم سے پیدا کیا اور پالا پوسا تھا۔ یہ عورتیں جو صعیف مائیں بن جاتی ہیں اتنی مفلس کیوں ہو جاتی ہیں؟ ان کے چھوٹے چھوٹے چمڑے کے بٹوے ایک دم خالی کیوں جاتے ہیں؟ وہ چند روپوں کی خاطر کیوں توہین کی زد میں آتی ہیں؟ میں نے ایسی بے شمار عورتوں کو دیکھا ہے جو شوہر کے مرتے ہی بے آسرا ہو جاتی ہیں۔ شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بے آسرا عورتیں دیکھی ہیں۔ ان کی کوئی کمی نہیں۔ ان کو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ شوہر مر جائے یا چھوڑ دے، یہ عورتیں غریب کیوں ہو جاتی ہیں؟ ان کے سر پر تو چھت اور پاؤں تلے سے زمیں کیوں سرک جاتی ہے؟ وہ تو کما بھی نہیں سکتی۔ ان کو تو کمانے بھی نہیں دیا جاتا۔ بس وہ بھکاری ہو جاتی ہیں۔ کبھی اپنوں کے سامنے کبھی غیروں کے سامنے۔ ان کا اپنا گھر نہیں ہوتا، جب ہی گھر بھی ان کی بیوگی کی آمد سے اس کے گوشت کے لوتھڑوں سے بنی اولاد نرینہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کی ماں کے ساتھ بھی ایسے ہوا۔ اس کے بیٹوں نے شکر بجا لایا کہ بڑھیا کی بلا سر سے ٹل گئی۔ یہ بیویاں بیٹوں کو جدا کرتی ہیں؟ یہ بیٹے کوئی شیر خوار طفل ہوتے ہیں جو اپنی ماؤں کو بے دخل زندگی کر دیتے ہیں؟ یہ مائیں ہیں جو بیٹوں کو بیویوں سے چھین لیتی ہیں؟ یہ شوہر دودھ پیتے نومولود ہوتے ہیں جو اپنی بیویوں کو کسی کے بہکاوے میں آکر مار دیتے ہیں؟ باجی! یہ سب ہم خود تو کرتے ہیں۔
میرے بھائی شہر کے معززین میں سے تھے۔ دکانوں کے مالک، کاروبار ان کی انگشتوں کے سہارے چلتے۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کی ماں ملک کے آخری کونے میں تن تنہا بزرگی میں دوسروں کی ہمدردی کے سہارے جی رہی ہے۔ وہ تو کھانا بھی نجانے روز کھاتی تھی یا نہیں ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ بزرگ مائیں نا ماں بن کر سکھی ہوتی ہیں، نہ ہی یہ بیویاں بن کر سکھ دیکھتی ہیں۔ مار پیٹ ان کی قسمت تب بھی تھی اور اب بھی جب یہ مائیں بن جاتی ہیں۔ ان کی اپنی جائیداد کیوں نہیں ہوتی؟ یہ جن گھروں کی ملکہ کہلاتی ہیں، وہ گھر ان کے نام کیوں نہیں ہوتے؟ ان کے نام تجوریوں میں کچھ روپے کیوں نہیں رکھے جاتے کہ جب یہ صعیف ہوں، بیوہ ہوں یہ بے گھر نہ ہوں۔ ان کو اپنے بیٹوں کے نام ہوئے اپنے محلوں میں رہنے کے لئے سویرے سویرے سودے نہ لانے پڑیں۔
اس روز جب میں نے اپنی ماں کا کھوج لگایا تھا، وہ کپڑے سی رہی تھی۔ وہ کپڑے جن کے دم سے وہ اس کمرا نما مکان کا کرایہ دیتی تھی۔ وہ کپڑے جن سے دن میں ایک ہی بار وہ کھانا کھاتی تھی۔ یہ عورتیں عمر بھر کھانے پکاتی ہیں، کھلاتی ہیں مگر کوئی ان کو کھانا کیوں نہیں کھلاتا؟ کسی کو ان کے کھانے کی فکر کیوں نہیں ہوتی؟ اس عورت نے عمر بھر اپنے بچوں کو پیٹ بھر بھر کھانا کھلایا مگر پھر وہی بچے اس کے نوالے گننا شروع ہوگئے، اتنے گنے کہ وہ گھر سے چلی گئی۔ ان کو تو تب بھی پرواہ نہ ہوئی کہ وہ چلی گئی۔ مگر جس روز میں نے اس کو کھوجا، وہ اپنی چیختی مشین سے ہڈیوں کی بیماری لگے ہاتھوں سے کپڑے سی رہی تھی مگر اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ پیوند زدہ لباس بھی ہمت ہار رہا تھا کہ اب وہ پھٹ چکا تھا۔ شائد اس میں اتنے کپڑے سینے کے بعد ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ اپنے تار تار لباس کو ہی ایک نیا پیوند لگا دیتی۔
 آہ! اس کی چیخ۔ وہ میری طرف لپکی اور گلے سے لگا لیا۔ اس کو یقین نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اس کو یاد رکھے گا۔ اس کا وہ گلے لگنا ایسا گرم اور نرم تھا، مجھے لگا کہ دنیا کے سارے نرم و گداز ریشمی تھان میرے اوپر اوڑھا دیئے گئے ہوں۔ اس کے بدن سے مجھے وہی بچپن کی تحفظ دینے والی خوشبو آئی جیسے اس کے ہاتھ کی ہنڈیا میں لچھے دار کٹے پیاز، ہلکی آنچ پر گرم گرم تیل میں رقص کر رہے ہوں جن میں تازہ کٹی ہوئی ادرک اور لہسن کا دل کھول کر استعمال کیا ہو۔ گرم تیل میں پکتے پیاز، ادرک، اور لہسن کا خوشبودار لمس میرے وجود پر چھا چکا تھا جو ماں کے ایک بار ہی گلے لگنے پر مجھے ملا۔ تحفظ کا وہ بے مثال احساس ایسے معلوم ہوا کہ جیسے مجھے کبھی کوئی غم ہی نہ تھا۔ یہ سب اس کی لازوال محبت تھی۔ ہم عورتوں کو کیا تحفظ دے سکتے ہیں جب ان کا ہونا ہی تحفظ کا لازوال احساس ہے۔ وہ اب زندہ نہیں ہے۔
 اس ضعیف عورت نے مرتے دم تک محنت کی۔ اس قدر باہمت اور حوصلہ مند عورت تھی کہ دنیا کا کوئی نڈر سپاہی اس کے پیروں کی دھول بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ عورتیں کتنی جنگیں لڑتی ہیں، ہر وقت محاذ پر کھڑی ہوتی حفاظتی فرض ادا کرتی ہیں۔ ان جیسا کوئی سپاہی نہیں۔ یہی تو حقیقی جرنیل ہوتی ہیں۔ میں تو آج بھی روتا ہوں، بہت روتا ہوں۔ اس عورت نے اپنے وجود سے خون ہمیں دیا تھا، اس کا خون چوس کر ہم بیٹے جنے گئے اور وہ دکھی رہی۔ اس کی کھانسی سے کراہیت کرنے والے اس کی ٹانگوں کے وسط سے دنیا میں آئے تو ہم کیسے اس کے بدن سے نفرت کر سکتے ہیں مگر انہوں نے کی، بہت کراہیت اور نفرت کی۔ مجھے معلوم ہے کہ میری بیوی کے ساتھ بھی یہی سب ہوگا۔ میری بیٹیاں میری محنت کی کمائی سے فیض یاب نہ ہوں گی، میرے بعد میری کمائی میرے بیٹوں میں بٹ جائے گی اور یہ بھی اپنی ماں کو میری بیوی کو بے آسرا چھوڑ دیں گے۔ مجھے بہت خوف آتا ہے، دل لرز سا جاتا ہے کہ میری بیٹیاں بھی تو ویسے مائیں بنیں گی، جن کی قسمت میں یہ سب ہوگا۔ نجانے ان کو کیسے شوہر ملیں گے، کیا وہ بھی مار پیٹ پر صبر و شکر کریں گی؟ میں تب زندہ نہ ہوا تو میری بے بس روح یہ ظلم دیکھ کر تڑپ جائے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی کی ماں میری ماں جیسی زندگی گزارے۔ میری بیوی کبھی اپنے گھر سے بے گھر نہ ہو۔ اس کے پیروں میں تو ابھی سے درد رہتا ہے، وہ میرے بیٹوں کے گھر میں رہنے کی غرض سے کیا صبح اٹھ کر سودے لائے گی؟ بھلا وہ کیسے لائے گی اس کے پیروں میں میری ماں کی طرح درد ہوتا ہے۔ کیا یہ میری بیٹیوں کی قسمت بھی ہوگی؟ میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ ان کا اپنا گھر ہو جو صرف ان کے نام کا ہو، ان کے ہاتھوں میں بہت سے روپے ہوں جو ان کے کمائے ہوئے ہوں جن پر کوئی احسان نہ جتائے۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوں نہ وہ دل خراش چیخ ماریں جو آج بھی میرے خوابوں اور بیداری میں میری سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔