ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون، خوشیا، دھواں ایسے نشتر ہیں جسے ایک منافق معاشرہ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان افسانوں کے تخلیق کار کی قبر کا کتبہ اس کا تعارف کچھ یوں کرواتا ہے ؛ یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے اس کے سینے میں فنِ افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں۔ وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا ”۔ منٹو کا دور ایک نئے معاشرے کی تخلیق کا دور تھا۔
فرسودہ تصورات میں دراڑیں پڑ رہیں تھیں۔ منٹو نے اردو ادب میں پہلی دفعہ عورت کو ایک مافوق الفطرت مخلوق اور تخیلاتی تصور سے باہر نکالا۔ منٹو کی عورت ایک عام عورت ہے جو ہمارے معاشرے میں بستی ہے۔ منٹو کے افسانے آپ کو کسی اور جہان کی سیر نہیں کرا سکتے بلکہ آپ کے معاشرے کے عکاس ہیں۔ وہ معاشرہ جو منافق بھی ہیں اور بے حس بھی۔ منٹو کے افسانوں میں معاشرے کے وہ تمام جزئیات نمایاں ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
اگر آپ اس ادب کے متلاشی ہیں جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے تو یقیناً منٹو آپ کے لیے نہیں ہے۔ بقول منٹو ”میرے اندر جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔ میری تحریروں میں کوئی نقص نہیں، جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے دراصل وہ موجودہ نظام کا نقص ہے“۔ منٹو کو کھول دو، ٹھنڈا گوشت، اوپر نیچے درمیان، دھواں، بو اور کالی شلوار پر فحش نگاری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کی شکایت منٹو نے یوں کی ”پہلے مجھے ترقی پسند تسلیم کیا جاتا تھا اور بعد میں مجھے رجعت پسند بنا دیا گیا اور اب فتوے دینے والے سوچ رہے ہیں اور پھر سے یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہو رہے ہیں کہ میں ترقی پسند ہوں اور فتووں پر فتوے دینے والی سرکار مجھے ترقی پسند یقین کرتی ہے یعنی ایک سرخا، ایک کیمونسٹ۔ کبھی کبھی جھنجھلا کر مجھ پر فحش نگاری کا الزام لگا دیتی ہے اور مقدمہ چلا دیتی ہے ”۔ منٹو نے جس معاشرہ کا احوال اپنے افسانوں میں رقم کیا ہے وہ ہمارا معاشرہ ہے، اس کے کردار کسی اور دنیا کی مخلوق نہیں ہے ہمارے معاشرے کے فرد ہیں جن میں اچھائیاں برائیاں، منافقت، شدت پسندی، نفسیاتی مسائل پائے جاتے ہیں۔ منٹو نے معاشرے اور اس کے فرد کو من و عن پینٹ کر دیا ہے جس کے بعض رنگ بدنما بھی ہیں۔ منٹو معاشرے پر ملمع سازی نہیں کرتا بلکہ اس کی نفسیات کی گرہ کھولتا ہے اور کہتا ہے“ میں تہذیب و تمدن کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپٹرے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے ”منٹو کی افسانہ نگاری نے اردو ادب میں نئے رجحانات اور نئی بحث کا آغاز کیا کہ ادب کو پرکھنے کا معیار کیا ہے معیار یا معاشرے میں رائج اخلاقیات۔