میں نے لکھنا چھوڑ دیا، اس لیے نہیں کہ مجھے لکھنا نہیں آتا۔ (لکھنا آتا ہے کا دعویٰ بھی نہیں)۔ اس لیے بھی نہیں کہ میں لوگوں کی تنقید یا برے الفاظ سے خوفزدہ ہو گئی ہوں۔ یا پھر مجھے اپنے اوپر کوئی اچھا ہونے کا ٹیگ لگوانا ہے۔ اچھا ہونے کا ٹیگ لگنا بھی خوب رہا۔ آپ اپنے بیڈ روم میں جو ہیں وہ آپ اپنے ڈرائنگ روم میں نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو ایسا کرنا پسند ہے۔ میں ان سب سے آگے نکل چکی ہوں۔ (بیڈ رومز میں انسان اپنی اصل فطرت کے ساتھ ہوتے ہیں آزما کے دیکھ لیجئیے)۔ میں جو ہوں سو ہوں کسی کے اچھا برا کہنے سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔ پڑنا بھی نہیں چاہئیے۔ لوگ وہ پڑ…
جس معاشرے کے ہم پروردہ ہیں۔ یہاں پہ سچ بولنے کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مرد اس معاملے میں عورت سے تھوڑا سا کم معتوب اس لیے ٹھہرتا ہے۔ کہ وہ عورت نہیں ہے۔ عورت اگر واقعات کو حقائق کو ان کی اصل شکل کے ساتھ معاشرے کو دکھانے کی کوشش کرے تو اس پہ سب سے پہلا الزام گشتی اور دو نمبر عورت ہونے کا لگتا ہے۔ (اگر لفظ گشتی پہ اعتراض ہے تو آپ اس کا متبادل لے آئیے میں وہ لکھ دوں گی) ۔ فاحشہ و حیا باختہ عورت جو معاشرے میں خرابی کا باعث بنتی ہے۔ مرد کو سچ بولنے پہ کبھی گشتا یا دو نمبر نہیں کہا جاتا۔ (کم سے کم میں نے نہیں سنا کوئی کہتا ہے تو مجھے بتا کے…
روزانہ کی بنیاد پہ بچوں اور خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات نے دل میں ایک خوف سا بٹھا دیا ہے۔ خوف ریپ ہو جانے یا مار دیے جانے کا تو ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ خوف بھی ہے کہ پھر معاشرہ کیا سلوک کرے گا۔ یہ خوف پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی خواتین میں محسوس کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک غیر ملکی سروے نظر سے گزرا۔ جس میں پوچھا گیا کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے لیے دنیا سے مرد غائب ہو جائیں۔ تو عورتیں کیا کرنا چاہیں گی۔ کوئی کمنٹ ایسا نظر سے نہیں گزرا۔ جس میں یہ کہا جاتا کہ ہمیں سیکس کی آزادی چاہیے۔ اپنی مرضی کے کپڑے پہننے، رات میں باہر پھرنے، اکیلی سڑک پہ و…
عام دنوں سے دن تھے۔ عام دنوں سے بھی برے دن تھے۔ کیونکہ ساری دنیا کی بے زاری میرے رویے میں تھی۔ عام دنوں میں پھر بھی مصروفیت رہتی ہے۔ کسی نہ کسی سے ملنا۔ کام کی بھاگ دوڑ رہتی۔ مگر ان دنوں وحشت چھائی تھی۔ تم انہی دنوں نظر آئے۔ نظر تو پہلے بھی آتے تھے۔ مگر اس دن ذرا مختلف نظر آئے۔ بات سے بات جملے سے جملہ گھنٹوں تک وقت کا پتہ نہ چلا۔ ایسا نہیں ہوتا اب میرے ساتھ۔ میں ٹو دی پوائنٹ بات کرنے والی بندی ہوں۔ اپنا نکتہ نظر رکھا۔ اور بس نکل لیے۔ مگر یہ کیا تھا کہ وقت گزرنے کا پتہ نہ چلا۔ پھر ایسے ہی وقت گزرنے لگا۔ تمہیں وقت ملتا تم پکار لیتے مجھے ملتا…
اک برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے۔ پر یہ کیسا نئے سال کا سورج طلوع ہوا کہ پوری دنیا کی تاریخ کو بدل کے رکھ دے گا۔ یہ کیسا سال ہے کہ جس میں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں موت کی دہشت اور کرونا وائرس کا خوف نہیں۔ چین سے ہوتے ہوئے ایران، اٹلی، سپین اور امریکہ سے ہوتا ہوا یہ پاکستان تک بھی پہنچ گیا۔ جہاں پہلے پہل تو اس کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ ہم ہی کیا جب امریکی صدر ٹرمپ تک اسے چائنیز وائرس کہہ کے اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ جب اس کے اپنے ملک پہنچنے سے پہلے حفاظتی اقدامات کی ضرورت تھی۔ وہاں اسے اتنا ہلکا لیا گیا کہ پی ایس ایل تک منعقد کروا ڈالا۔ دنیا کی …
اب جبکہ مارچ کا مہینہ قریب ہے۔ تو ملک میں ایک طوفان مچا نظر آ رہا ہے۔ یوں تو مارچ کا مہینہ ہمیشہ سے ہی اپنی باری پہ آ کے چلا جاتا تھا۔ مگر گزشتہ دو سال سے مارچ کی آٹھ تاریخ ملک میں ایک دم سے افراتفری مچا دیتی ہے۔ ویسے تو آٹھ کے ہندسے میں ایسا کچھ نہیں۔ مگر مارچ کی آٹھ تاریخ ہمارے پدرسری سماج کے تن بدن میں آگ بھر دیتی ہے۔ آگ بھی ایسی کہ جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ وجہ صاف ہے۔ عورتوں کے عالمی دن پہ ہمارے ملک کی چند عورتوں نے معاشرے کے وہ گھناونے و سیاہ چہرے لا کے سامنے رکھ دیے جنہوں نے پدرسری معاشرے کے مرد تو مرد اسی سوچ کی حامل خ…
عورت کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد سے سے عبارت ہوتی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی رشتے میں ہو، لیکن ایک جہد مسلسل اس کی ذات کا حصہ لازم ہوتا ہے۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ اپنی ذات کے کچھ حصے وہ دکھا دیتی یا بتا دیتی ہے اور کچھ کبھی نہیں بتاتی۔ عورت کو ججمنٹل ہوئے جانے سے خوف آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرے کا پریشر اور والدین سے گھروں میں ملنے والی تربیت ہے۔ چونکہ بیٹی کے لیے تربیت و معاشرے کے الگ پیمانے ہیں جو ہم نے طے کر رکھے ہیں۔ سونے جاگنے اٹھنے بیٹھنے کھانا کھانے و بنانے سے لے کر جملہ امور جو عورت نے سرانجام دینے ہیں، وہ مرد سے الگ سکھائے و بتائے جاتے ہیں۔ …
نوشی بٹ بہت سارے واقعات اس تسلسل سے وقوع پزیر ہوتے ہیں کہ ابھی ایک پہ لکھنے کا سوچتے ہی ہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے۔ شروع کرتی ہوں فیض میلے میں لگنے والے سٹوڈنٹس کے نعروں سے۔ نعرے انقلابی تھے۔ جوش سے بھرپور تھے۔ پچھلے سال بھی ایسے ہی لگے لیکن اس وقت ان کو اتنی پزیرائی نہیں مل سکی۔ بلاشبہ اس بار حبہ اور عروج اورنگزیب کے جوشیلے انداز نے ان نعروں اور سٹوڈنٹس کے مطالبات میں ایک نئی روح پھونکی۔ جونہی یہ نعرے اور عروج کی وڈیو وائرل ہوئی سوشل میڈیا پہ ایک طوفان مچ گیا۔ اب کی بار توپوں کا رخ طلبا کے تمام نظریات و مطالبات سے ہٹ کے عروج کی لیدر کی جیکٹ اور ب…
Social Plugin