ہم عورتیں مال غنیمت ہیں، ہمارے حصے تو لازمی ہوں گے

 

میں نے لکھنا چھوڑ دیا، اس لیے نہیں کہ مجھے لکھنا نہیں آتا۔ (لکھنا آتا ہے کا دعویٰ بھی نہیں)۔ اس لیے بھی نہیں کہ میں لوگوں کی تنقید یا برے الفاظ سے خوفزدہ ہو گئی ہوں۔ یا پھر مجھے اپنے اوپر کوئی اچھا ہونے کا ٹیگ لگوانا ہے۔ اچھا ہونے کا ٹیگ لگنا بھی خوب رہا۔ آپ اپنے بیڈ روم میں جو ہیں وہ آپ اپنے ڈرائنگ روم میں نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو ایسا کرنا پسند ہے۔ میں ان سب سے آگے نکل چکی ہوں۔ (بیڈ رومز میں انسان اپنی اصل فطرت کے ساتھ ہوتے ہیں آزما کے دیکھ لیجئیے)۔ میں جو ہوں سو ہوں کسی کے اچھا برا کہنے سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔ پڑنا بھی نہیں چاہئیے۔

لوگ وہ پڑھنا چاہتے ہیں جن سے معاشرے کے چہرے پہ پڑا نقاب نہ ہٹے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ ایک بدنما بھدے اور ناہموار فرش پہ ایک خوبصورت پھول دار کارپٹ بچھا کے اس کی بدصورتی کو چھپا دیا جائے۔ یہ کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں۔ میں معاشرے کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی بدصورتی کو بھی اسی شدت سے محسوس کرتی ہوں۔ آپ کے نظریں پھیرنے سے سچائی تو چھپ نہیں سکتی۔
بطور عورت اس سماج میں بسنے والی تمام عورتوں کو اپنے عورت ہونے کا خراج ادا کرنا پڑتا ہے۔ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک ایک عورت جو کچھ بھی برداشت کرتی ہے اسے اگر ہر عورت لکھنا شروع کر دے، تو شاید اس دنیا میں ان کتابوں کو رکھنے کی جگہ ختم ہو جائے۔ ترقی یافتہ ممالک کی عورت اپنے حقوق سے آشنا بھی ہے۔ اور اسے اپنے حقوق کے لیے لڑنا بھی آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تو بہت سی ظلم زیادتیوں کو عورت نے ہوش سنبھالتے ساتھ ہی تسلیم کر لیا ہوتا ہے۔
ایک پدر سری سماج کی پروردہ عورت جن میں سے زیادہ تر اپنے بنیادی حقوق جن میں سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنے کی آزادی شامل ہے، اس تک کے لیے بات نہیں کر سکتی۔ جنسی ہراسمنٹ اور گالم گلوچ بھی ہوش آنے کے ساتھ سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ مگر ان پہ بات کرنا اتنا ہی برا سمجھا جاتا ہے۔ اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ جس چیز کو کر کے مرد شرمندہ نہیں ہوتے، اس پہ بات کرنے سے عورت پہ آوارہ اور بدزبان ہونے کا ٹھپہ لگا جاتا ہے۔ جو اپنے میں خود ایک مذاق والی بات ہی ہے۔
مگر اس سے قطع نظر کہ لوگ کیا سوچتے ہیں میں جب لکھوں گی تو وہی بات لکھوں گی۔ جو میں محسوس کرتی ہوں۔ یا جس سے میرا واسطہ پڑتا ہے۔ اب یہاں سے سنئیے۔
جمعے کی نصف شب اپنے دوست کے ہمراہ اپنے ہی گھر کے ایک گھر پہلے ہمیں گن پوائنٹ پہ قیمتی اشیاء سے محروم کر دیا گیا۔ اس سب سے قطع نظر کہ نقصان کیا ہوا اور بچت کیا ہوئی۔ میں لوگوں کے رویے دیکھ کر زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوئی۔ رات کے اس پہر باہر کیوں گئے، کا سوال میری ذات پہ سوال اٹھاتا ہے۔ مطلب اگر رات کے وقت میرا ڈھابے سے چائے پینے کو دل چاہے تو مجھے یہ سوچ کر گھر بیٹھنا چاہئیے کہ شریف عورتیں رات کو گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔
شریف عورت اور آوارہ عورت کے بیچ فرق کو طے کرنے کا حق معاشرے کو کیوں اور کیسے مل گیا۔ یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں۔ شریف عورت چادر سے یا عبائے سے خود کو ڈھانپتی ہے۔ تا کہ لوگوں کی بدنظروں سے محفوظ رہے۔ شریف عورتیں اپنے محرم رشتوں کے علاؤہ باہر نہیں جاتیں۔ شریف عورت کا کیا کام ہے کہ وہ مردوں سے دوستی کرے۔ بلکہ اسے تو عورتوں سے بھی بہت محتاط ہو کے ملنا چاہئیے۔
آوارہ عورت جینز پہنتی ہے۔ اس کے دیدوں کا پانی مر جاتا ہے، کیونکہ اس کے دوستوں میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں ہوتی۔ اسے اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے۔ وہ مرد کو اپنا مالک سمجھنے کی بجائے اپنے جیسا ایک انسان سمجھتی ہے۔ جس کی غلطی پہ اسے ٹوکنے کی ہمت بھی اس کے پاس ہوتی ہے۔ آوارہ عورت کیوں کیا اور کس لیے جیسے لفظ بولنا جانتی ہے۔ یہی چیز معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے۔
مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی عورت کچھ بھی پہنے۔ کسی عورت نے عبایا پہنا ہو یا چادر، دوپٹہ اوڑھا ہو یا نہ اوڑھا ہو۔ کسی نے جینز پہنی ہے یا فراک میں کون ہوتی ہوں اس پہ جملے کسنے والی۔ مجھے اپنے آپ سے غرض ہے۔ اگر باہر نکلتے ہوئے میں جینز شرٹ میں کمفرٹیبل ہوں تو مجھے وہی پہننا ہے۔ چاہے دن کے بارہ بجے ہوں یا رات کے۔
یہ نصیحت کرنا کہ عورت احتیاط کرے۔ اسے خود اپنا خیال ہونا چاہئیے۔ سیدھا سیدھا یہ بات بتاتا ہے کہ گھر سے باہر درندوں کا راج ہے۔ محفوظ تو عورت گھر میں بھی نہیں مگر اس بات پہ آ کے تمام بزرگان نصیحت چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ آپ آدھی رات کو لٹ گئے ہیں تو اس میں آپ کی غلطی ہے کہ آپ گھر سے باہر کیوں نکلے۔ اور آپ نے کپڑے سوسائٹی کے حساب سے نہیں پہنے۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئیے کہ آپ پاکستان میں ہیں یورپ میں نہیں۔ ایک بار بھی یہ نہیں بولا گیا کہ غلطی لوٹنے والوں کی ہے۔
میں آٹھ سال کی تھی جب پہلی بار ہمارے گھر ڈکیتی ہوئی۔ اور گن میری کنپٹی پہ لگائی گئی۔ دوسری بار میری عمر سترہ برس تھی جب میرے سامنے جدید اسلحہ تھا۔ تیسری بار میں اٹھارہ سال کی تھی۔ میرے لیے گن کے سیفٹی لاک ہٹتے دیکھ کر اسے خود پہ تانے جانا کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ آپ ضرور شاک میں چلے جاتے ہیں۔ میں بھی ہوں مگر اس سب کے باوجود مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ میں نے اس لیے مزاحمت نہیں کی کہ میرے ساتھ ایک اور انسان تھا۔ میری مزاحمت اس کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی تھی۔ اس گھٹیا سچویشن میں بھی میرا دماغ سیکنڈز کے حساب سے بس یہی بات سوچ رہا تھا کہ بولنا نہیں۔
میں دن رات کے اوقات میں اپنے تمام کام تقریبا خود سر انجام دیتی ہوں۔ مگر اس ایک واقعے نے مجھے بتا دیا کہ میں کچھ بھی کروں۔ میں ایک عورت ہوں۔ مجھے سماج کے حساب سے چلنا ہے۔ مجھے یہ دیکھنا چاہئیے کہ اردگرد کے لوگ مجھ پہ انگلی نہ اٹھائیں۔ مجھے محتاط ہونا چاہئیے۔ مطلب اور کتنا محتاط ہونا ہے اس کا کوئی پیرامیٹر نہیں ہے۔ مگر مجھے ہونا چاہئیے۔ کیونکہ میں پاکستان میں رہنے والی ایک عام عورت ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ ہم عورتیں جو اس سماج میں رہتی ہیں۔ جو روزانہ کی بنیاد پہ اپنی سانسوں کو قائم رکھنے کی جنگ کرتی ہیں۔ ان کو ابھی خود کو انسان منوانے میں کئی صدیاں چاہئیں۔ یہاں پہ عورت کو بطور انسان دیکھا نہیں جاتا۔ بلکہ میجورٹی لوگ ایسے ہیں جو کسی بھی عورت کو دیکھتے ہی اس کی ذات سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔ خودمختار و آزاد عورت سے اس حصے کی توقع زیادہ کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو ایسا نہیں لگتا تو آپ کبھی عورت بن کے باہر آزاد گھوم کے دکھا دیں۔ کوئی آپ کو دیکھتے ہی جانگھیں کھجانے لگے گا۔ کوئی ذومعنی آوازیں کسے گا۔ کوئی آپ کو پیچھے سے یا سامنے سے مس کرنے کی کوشش کرے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر دفتروں سکولوں کالجوں تک آپ کو مال غنیمت سمجھا جائے گا۔
آپ کچھ بھی کر لیں آپ کو یہ ہراسمنٹ برداشت کرنی پڑے گی۔ آپ کے مینٹل ٹراما کو آپ کا ڈرامہ سمجھا جائے گا۔ اور اسے توجہ حاصل کرنے کا ایک حربہ سمجھا جائے گا۔
مرد کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پہ اس سے نہ تو اس کے کپڑوں کی بابت سوال ہوتا ہے۔ نہ ہی اس کے گھر سے باہر ہونے کے اوقات پہ سوال کیا جاتا ہے۔ وہ دن رات کے کسی بھی پہر میں آؤٹنگ کے لیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے شہر جا سکتے ہیں۔ رات گھر سے باہر گزار سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کے ساتھ کسی زیادتی کو زیادتی ہی کہا جائے گا۔ اس کی غلطی نہیں۔ نہ ہی اس کا کوئی قصور نکلے گا۔ مگر دوسری جانب رویہ بالکل الگ ہے۔
آپ عورت ہیں اور اگر آپ کے ساتھ جنسی ہراسمنٹ ہوتی ہے، آپ کو گن پوائنٹ پہ لوٹ لیا جائے، آپ کا ریپ ہو جائے یا آپ کا قتل ہو جائے۔ یاد رکھئیے اس کی ذمہ دار صرف آپ ہیں۔ کیونکہ آپ کے کپڑے درست نہ ہوں گے، آپ نے رات کو باہر نکلنے کی غلطی کی ہو گی یا پھر آپ نے مرد کو انکار جیسی جرات کی۔ آپ کا کام بس یہ ہے کہ آپ ہر وقت اس بات کے لیے تیار رہیں کہ اگلے ہی لمحے آپ کے عورت ہونے کا خراج آپ کو ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور اس پہ کوئی شور بھی نہیں مچانا چپ رہنا ہے، کیونکہ شریف عورتیں شور نہیں کرتیں۔
اب اس بات کا فیصلہ آپ کر کے بتا دیں کہ اس صورتحال کو خوبصورت اور اچھا کیسے دکھاؤں۔ مجھے تو یہ ہنر نہیں آتا۔