بریسٹ کینسر یا چھاتی کا سرطان: ’مجھے بالکل نہیں پتہ تھا کہ یہ مردوں میں بھی ہوتا ہے‘

  • سحر بلوچ
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


 

’مجھے بالکل نہیں پتہ تھا کہ یہ مردوں میں بھی ہوتا ہے۔ جب تک مجھے پتہ چلا تب تک پانچ سال گزر چکے تھے۔‘

کراچی کے رہائشی محمد خلیق (فرضی نام) اس بات سے لگ بھگ پانچ برس بے خبر رہے کہ انھیں چھاتی کا کینسر کا عارضہ لاحق ہے۔

عموماً چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صرف خواتین کو ہوتا ہے، نتیجتاً اس کے بارے میں مردوں کے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کو بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔

محمد خلیق بتاتے ہیں کہ ’جب میرا علاج شروع ہوا تو مجھے ڈاکٹروں نے بتایا کہ چار سال کے عرصے میں اِس ہسپتال میں چھاتی کے کینسر کا میں پہلا مریض آیا ہوں۔ میں یہ سن کر ہی کافی حیران تھا کہ مردوں کو بھی یہ کینسر ہوتا ہے۔‘

کینسر کی تشخیص کے بارے میں محمد خلیق نے بتایا کہ ’میرے سینے پر نِپل کے پاس ایک دانہ تھا جس کی اپنے جسم پر موجودگی کا احساس مجھے تشخیص سے پانچ برس قبل ہو چکا تھا۔ پھر اس سے لگاتار پیپ بہنے لگی۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تھا تو ڈاکٹر نے میرا الٹرا ساؤنڈ کیا اور انھوں نے کہا کہ کچھ نہیں ہے رگڑ لگنے سے ہو گیا ہے اور یہ کہ سب جلد صحیح ہو جائے گا۔ کچھ عرصے بعد یہ دانا سوکھ گیا۔‘

اس دوران خلیق کام کے سلسلے میں پاکستان سے باہر چلے گئے۔ ’ابتدائی تین سال کے عرصے کے دوران اس دانے میں کوئی درد نہیں تھا۔ تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے اس دانے پر ٹیپ لگانا شروع کر دیا تھا تاکہ میرے کپڑے خراب نہ ہوں۔ اس طرح میں کام کرتا رہا۔‘

چھاتی کا کینسر

سنہ 2016 میں جب خلیق واپس پاکستان پہنچے تو انھوں نے محسوس کیا کہ یہ دانا بہت بڑا ہو چکا ہے۔ ’ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو اس دفعہ ڈاکٹر کے دماغ کی گھنٹی بجی اور ٹیسٹ کے بعد پتہ چلا کہ مجھے چھاتی کا کینسر ہے۔‘

خلیق نے کہا کہ انھوں نے یہ بات کسی سے نہیں چھپائی حالانکہ گھر والے مرض کے بارے میں کسی کو بتانے سے منع کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’میں نے جس طرح زندگی گزاری ہے اس میں اب تک کوئی بھی بات کسی سے نہیں چھپائی۔ اسی طرح جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے چھاتی کا کینسر ہو چکا ہے تو میں نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے واٹس ایپ گروپ میں بتا دیا اور انھیں کہا کہ میرے لیے دعا کریں۔‘

خلیق کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں دیگر ایسے کیسز کے بارے میں معلوم ہوا۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دوستوں سے یا رشتہ داروں سے بات کرتے ہوئے انھیں پتہ چلا کہ ان کے قریبی حلقے میں موجود ایک مرد کو بھی یہ مرض ہو چکا ہے۔

گذشتہ 30 برسوں میں کراچی کے آغا خان ہسپتال میں مردوں میں چھاتی کے کینسر کے صرف چالیس کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر ثنا ذیشان کے مطابق چھاتی کے کینسر کی صرف ایک فیصد شرح مردوں میں پائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے برعکس مردوں کی چھاتی چھوٹی ہوتی ہے اور اس میں گلینڈیولر ٹشوز کم ہوتے ہیں۔ اس لیے جب ایسے مریض ہمارے پاس آتے ہیں تو ان میں چھاتی کی جگہ پر گانٹھ ہوتی ہے، یا یہ گُٹھلی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اور کیونکہ مرد کی چھاتی ہوتی ہے، اس لیے اس میں چھوٹی گانٹھ بھی بڑی نظر آتی ہے۔ اس لیے جلدی نظر آ جاتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہے۔‘

چھاتی کا کینسر

ڈاکٹر ثنا نے بتایا کہ اس کے بعد کے مراحل میں یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کیا گانٹھ میں تبدیلیاں اور چھاتی پر دانا یا نشان کیا چھاتی کا سرطان ہی ہے یا کوئی اور مرض ہے۔ ’اس کے لیے ضروری ہے کہ مرد اپنا معائنہ کریں اور چھاتی اور بغل کے پاس یا اندر کسی قسم کے غیر معمولی دانے، خراش اور پیپ نکلنے کے بارے میں ڈاکٹر کو بتائیں۔‘

خلیق نے بتایا کہ جب وہ کلینک جاتے تھے تو وہاں پر عورتیں ہی عورتیں ہوتی تھیں۔

’جب میں خواتین کے وارڈ میں جاتا تھا تو تمام خواتین مجھے غور سے دیکھتی تھیں کہ یہ خواتین کے وارڈ میں کیا کر رہا ہے؟ پھر میں دیکھتا تھا کہ نرسیں انھیں بتاتی تھیں کہ انھیں بھی چھاتی کا کینسر ہے۔‘

چار سال کے علاج کے بعد اب خلیق چھاتی کے کینسر سے تو صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن آئے دن ان کے ٹیسٹ ہوتے ہیں تاکہ ڈاکٹر اس پر نظر رکھیں کہ خلیق کے جسم کے کسی اور حصے میں تو کینسر نہیں پنپ رہا۔

اسی طرح انھیں چند ادویات اگلے پانچ سال تک لینی ہیں تاکہ ان کے جسم کے دیگر اعضا کو کینسر کے کسی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھا جا سکے۔

مزید پڑھیے

خلیق کہتے ہیں کہ ’میں نے علاج کے دوران دو تین باتیں سیکھی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے دوست یا رشتہ دار بجائے آپ پر رحم کھانے کے اگر آپ کی معاشی مدد کر دیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔‘

’میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح کینسر کا علاج کرنے کے لیے لوگ اپنے گھر بار گروی رکھ دیتے ہیں۔ اور شرمندگی کے مارے وہ یہ کسی کو نہیں بتاتے کہ علاج کا خرچہ بہت ہے۔ میرے پاس خدا کے کرم سے پیسے تھے تو میں نے علاج کروا لیا۔ لیکن ان لوگوں کا خیال ذہن میں آتا تھا جو علاج مکمل نہیں کروا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لوگوں سے چھپانے کے بجائے انھیں بتائیں۔ کیا پتہ کوئی اسی مرض سے گزر رہا ہو اور اسے نہ پتہ ہو۔ آپ کے بات کرنے سے وہ بھی بات کریں اور ان کے مرض کی جلد تشخیص ہو جائے گی۔‘

اپنی بات ختم کرتے ہوئے خلیق کا کہنا تھا کہ ’یقیناً لوگ حیران ہوتے تھے کہ یہ تمہیں کیسے ہوا؟ میرے پاس چھوٹا سا جواب یہ تھا کہ یہ سب کو پتہ ہے کہ یہ مردوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی 21ویں صدی کا پہلا کیس نہیں تھا۔ مجھ پر ایک وقت آنا تھا جو آ کر گزر گیا۔‘