وائٹ میرج: ایران کے غیر شادی شدہ جوڑے جو خواہش کے باوجود بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں

 

"تہران میں اپنے پارٹنر کے ساتھ رہنے والی 27 سالہ مترا کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اسے ضائع کروانا پڑا۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا۔‘

مترا اور 32 سالہ ڈاکٹر محسن ’وائٹ میرج‘ (یا سفید شادی) کہلائے جانے والے ایک طریقے کے تحت ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔

ساتھ رہنے کا یہ طریقہ یعنی ’وائٹ میرج‘ ایران کے سخت اسلامی قوانین کے تحت اسی طرح غیر قانونی ہے جیسے شادی سے پہلے سیکس کرنا۔

مترا کہتی ہیں کہ ’محسن اور میں ان مشکلات کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے مگر تب ہمارا (بچہ پیدا کرنے کا) کوئی منصوبہ نہیں تھا۔‘

مگر پھر اُن کا خیال تبدیل ہو گیا اور اُنھیں اُمید تھی کہ وہ قانونی پیچیدگیوں کے باوجود اپنے ہونے والے بچے کا برتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکیں گے۔

مگر اپنی بھرپور کوشش کے باوجود اُنھیں اسقاطِ حمل کی طرف ہی جانا پڑا۔

ایران کے عائلی قانون کی شق 1167 کے تحت ’زنا سے پیدا ہونے والا بچہ زنا کرنے والوں کا نہیں ہو گا۔‘

اس کا مطلب ہے کہ غیر شادی شدہ والدین کے پاس بچے کی تحویل سے متعلق حقوق نہیں ہوتے اور صرف ماں ہی بچے کی برتھ سرٹیفیکیٹ پر اپنا نام لکھوا سکتی ہیں۔

اور جہاں تک ایسے بچوں کی بات ہے تو حکام ایسے بچوں کا ایک خفیہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔

یہ ایسی معلومات ہیں جن کی بنا پر بعد میں اُن کے لیے ایرانی معاشرے میں رہتے ہوئے کچھ ملازمتیں حاصل کرنا ناممکن ہو سکتا ہے۔

ویسے تو ’وائٹ میرج‘ کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں مگر یہ اب پہلے سے زیادہ عام ہیں اور ایران کی سخت گیر حکومت کو کھٹکنے لگی ہیں۔

Silhouette of man and woman on a street

،تصویر کا ذریعہIRNA

،تصویر کا کیپشن

بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کا خفیہ سرکاری ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور مستقبل میں ایسے بچوں کے لیے چند مخصوص ملازمتیں حاصل کرنا نامکمن ہوتا ہے

انھیں روکنے میں ناکامی کے بعد اب حکام اس مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں کہ ایسے جوڑوں کے بچوں کا کیا کیا جائے۔

نائب وزیر برائے اُمورِ نوجوانان محمد مہدی نے خبر رساں ادارے ’ایلنا‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آخرِ کار ان بچوں کو سکولوں میں داخلے سے قبل برتھ سرٹیفیکیٹ تو چاہیے ہی ہو گا۔‘

اُنھوں نے خبردار کیا کہ اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکامی کے تباہ کُن اثرات ہو سکتے ہیں۔

ایران کے حکام وائٹ میرج سے پیدا ہونے والے بچوں کے مسئلے سے آگاہ ہیں مگر ان میں سے بہت کم ہی نے اس حوالے سے کھلے عام بات کی ہے۔

سابق اصلاح پسند قانون ساز پروانہ صلاحشوری نے گذشتہ ستمبر میں وارننگ دی تھی کہ ایسی حاملہ خواتین کے لیے واحد راستہ اسقاطِ حمل رہ جائے گا۔

مگر پروانہ کو انتہائی قدامت پسند خبر رساں ادارے فارس نے اُن کے ’بے بنیاد دعوؤں‘ پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایرانی اسٹیبلشمنٹ کا کہنا ہے کہ اقتصادی چیلنجز اور شادی سے پہلے کی پیچیدہ رسومات کی وجہ سے غیر شادی شدہ ایرانی روایتی، مذہبی منظوری رکھنے والی شادیوں سے دور ہو رہے ہیں۔

ایرانی حکومت نوجوانوں کو روایتی شادیوں پر راغب کرنے کے لیے اُنھیں ابتدائی خرچوں کی خاطر بلاسود قرضے تک فراہم کر رہی ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہBORNA NEWS

،تصویر کا کیپشن

پروانہ صلاحشوری نے خبردار کیا تھا کہ ایران میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے لیے اسقاطِ حمل واحد راستہ رہ گیا ہے

مگر مغربی شہر ہمدان سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ شینا کہتی ہیں کہ ’یہ صرف ایک درد کش دوائی کے جیسا ہے۔‘ (یعنی مسئلے کا وقتی حل)

وہ کہتی ہیں کہ ’گردن توڑ کرایوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟‘

اُن کا اشارہ گذشتہ چند برسوں میں رہائش کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی طرف تھا۔

شینا گذشتہ ایک دہائی سے اپنے پارٹنر صادق کے ساتھ رہ رہی ہیں اور وہ ساتھ رہنے کو اسلامی جمہوریہ میں حکام کے خلاف ایک مقبول بغاوت کے طور پر دیکھتی ہیں۔

'ہم ایسی زبردستی کی (شادی) پر راضی نہیں ہوں گے۔ ایسا کیوں ہے کہ کچھ ایجاب و قبول سے انکار کرنے پر ہمارا رشتہ ناجائز ہو جاتا ہے؟‘

ایران کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ساتھ رہنے کی بڑھتی پذیرائی عام نظر آتی ہے، اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سماج میں اس حوالے سے بدنامی میں کمی ہو رہی ہے۔

ٹیلی گرام ایپ پر کئی چینلز میں غیر شادی شدہ ایرانی اپنے لیے پارٹنر تلاش کر سکتے ہیں۔

ان میں سے ایک چینل پر تو 45 ہزار سے زائد صارفین ہیں جو موزوں شخص کی تلاش میں اپنا ذاتی ڈیٹا وہاں شیئر کرتے ہیں۔

مگر اب بھی ایسے آن لائن گروپس کا مستقبل ایران کے سخت گیر حکام کے باعث غیر یقینی ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

سخت گیر مذہبی شخصیت ابراہیم رئیسی رواں سال صدر منتخب ہوئے تھے

رواں سال انتہائی قدامت پسند مذہبی شخصیت ابراہیم رئیسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد اقتدار پر قدامت پسندوں کی گرفت مضبوط ہو گئی ہے۔

صرف دو ہفتوں قبل اُنھوں نے ایران میں انٹرنیٹ کے نگراں ادارے کو انٹرنیٹ کی ’صحت اور تحفظ‘ کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مزید سخت کنٹرولز بھی آ سکتے ہیں۔

’ہمارے خواب کچلے گئے‘

شینا اور صادق کو موجودہ پابندیوں کی وجہ سے کافی مشکلات اٹھانی پڑی ہیں۔

جب سنہ 2016 میں شینا حاملہ ہوئیں تو اس جوڑے نے جرمن ویزا کے لیے درخواست دی کیونکہ اُنھیں معلوم تھا کہ وہ اور اُن کا بچہ ایران میں کیا قانونی مشکلات جھیل سکتے ہیں۔

مگر اُن کی درخواست رد ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے خواب کچلے گئے اور اب ہمارے پاس اسقاطِ حمل (واحد) راستہ تھا۔‘

ایرانی قانون کے تحت جب تک حمل سے ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو یا ہونے والا بچہ شدید جسمانی معذوری کا حامل نہ ہو، تب تک اسقاطِ حمل غیر قانونی ہے۔

ان پابندیوں کی وجہ سے بازار میں اسقاطِ حمل کی گولیاں دستیاب نہیں ہوتیں اور کئی خواتین کو غیر قانونی طور پر اسقاطِ حمل کروانا پڑتا ہے جو خطرناک ہو سکتا ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

ایران جوڑوں کو روایتی شادیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے حکومت قرض بھی فراہم کرتی ہے

ایک 36 سالہ ماہرِ امراض نسواں نے تحفظ کی خاطر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ تہران کے مغرب میں اپنے نجی کلینک میں ایسے جوڑوں کے لیے تین غیر قانونی اسقاطِ حمل کر چکی ہیں۔

وسائل رکھنے والے جوڑوں کے لیے ایران چھوڑنا ایک راستہ ہے۔

پری اور اُن کے پارٹنر یاسین دونوں 35 سال کے ہیں۔ اُنھوں نے ترکی کے شہر استنبول میں فلیٹ خریدنے کے لیے اپنی زندگی بھر کی کمائی خرچ کر دی ہے۔

استنبول ایران کے اقتصادی بحران اور سخت سیاسی اور سماجی ماحول سے بیزار ہو چکے کئی ایرانیوں کے لیے مقبول منزل بن چکا ہے۔

پری نے پچھلے حمل کے بعد اسقاطِ حمل کروا لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ 'جب مجھے پہلی بار صبح میں متلی ہوئی تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اس بار بچہ پیدا کروں گی، چاہے جو بھی قیمت ہو۔'

وہ فخر سے کہتی ہیں کہ ’اپنا گھر چھوڑنا آسان نہیں تھا مگر ہم بچے کی اپنی محبت سے پرورش کریں گے اور یہی معنیٰ رکھتا ہے۔‘

’مگر پھر بھی میں اپنے اُن دوستوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو ساتھ رہتے ہیں، اور بچہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، مگر اس موقع سے محروم کیے جا رہے ہیں۔‘