میں بری عورت ہوں کیونکہ میں روایت شکن عورت ہوں


عورت کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد سے سے عبارت ہوتی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی رشتے میں ہو، لیکن ایک جہد مسلسل اس کی ذات کا حصہ لازم ہوتا ہے۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ اپنی ذات کے کچھ حصے وہ دکھا دیتی یا بتا دیتی ہے اور کچھ کبھی نہیں بتاتی۔ عورت کو ججمنٹل ہوئے جانے سے خوف آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرے کا پریشر اور والدین سے گھروں میں ملنے والی تربیت ہے۔ چونکہ بیٹی کے لیے تربیت و معاشرے کے الگ پیمانے ہیں جو ہم نے طے کر رکھے ہیں۔

سونے جاگنے اٹھنے بیٹھنے کھانا کھانے و بنانے سے لے کر جملہ امور جو عورت نے سرانجام دینے ہیں، وہ مرد سے الگ سکھائے و بتائے جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ میری ماں نے اپنی ماں اور میری نانی نے اپنی ماں سے جو تربیت حاصل کی۔ وہی وہ نسل در نسل آگے دینے پہ جٹی رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے کسی بھی واقعہ پہ کیوں یا کس لیے کیے جانے سوال پہ مجھے ہمیشہ یہی سننے کو ملا کہ لڑکیاں ایسے سوال نہیں کرتیں۔ میری نانی بتاتی تھیں کہ ایک بار انہوں نے دو چوٹیاں کیں تو ان کے ماموں نے ان کو بہت شدید ڈانٹا۔

میرے پوچھنے پہ کہ ماموں نے کیوں ڈانٹا آپ کے امی ابو کا حق تھا کچھ بھی کہنے کا۔ تو انہوں نے کہا کہ لڑکیاں ایسے سوال نہیں کرتیں۔ وہ بڑے تھے مجھے زندہ بھی گاڑ سکتے تھے کسی نے کچھ نہیں کہنا تھا۔ اور میں حیرت سے سوچتی رہی کہ یہ کیسی عورت ہیں۔ ایسے ہی اردو پڑھنے پہ ان کا قاعدہ پھاڑ کے باقاعدہ ان کو مارنے دوڑے۔ کہ تم بے حیا عورتوں کی نقل کرو گی۔ نانی اماں کی آواز بہت خوبصورت تھی۔ مگر وہ گانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔ ورنہ غیرت کے نام پہ ہی ماری جاتیں۔ وہ اپنا شوق نانا کو گانا سنا کے پورا کر لیتی تھیں بقول ان کے۔ یا جب مجھے پتہ چلا تو میں فرمائشی پروگرام چلواتی کہ اب یہ سنائیں اب یہ سنائیں۔ آج بھی آئے موسم رنگیلے سہانے کہیں چلتا ہو تو کانوں میں گلوکارہ کی بجائے نانی کی آواز رس گھولتی ہے۔

مجھ میں روایت شکنی کی پہلی بنیاد کہاں سے پڑی۔ مجھے یہ یاد نہیں۔ مگر مجھے چھوٹی عمر سے ہی کیسے کیوں اور وجہ جاننے کے لیے پڑنے والے تھپڑ یاد ہیں۔ امی نے کسی بات پہ کبھی فورس نہیں کیا۔ شاید سنگل پیرنٹ ہونے کی وجہ سے کچھ معاملات پہ انہوں نے ہم دونوں بہن بھائی کو چھوٹ دیے رکھی۔ لیکن کچھ باتوں پہ لڑکی ہونے کی وجہ سے مجھے نظر انداز کیا گیا۔ مثلا میں گاؤں گئی ہوئی تھی واپس آئی تو بھائی کی نئی جگمگاتی سپورٹس سائیکل صحن میں کھڑی تھی۔

میں نے فورا کہا میری سائیکل۔ جواب ملا لڑکیاں سائیکل نہیں چلاتیں۔ مگر چلانی تو بھائی کو بھی نہیں آتی۔ اسے کیوں لے کر دی۔ جواب ملا وہ سیکھ لے گا۔ بس ضد گھس گئی دماغ میں سائیکل ہو اور میں ہوں۔ صحن میں مسلسل پانچ چھ دن گول گول سائیکل گھمانے کے چکر میں گھٹنے کہنیاں سب چھلے گئے۔ مگر فائنلی میں نے سائیکل چلانا سیکھ لی۔ بھائی کو پھر بھی نہ آئی۔ اچھا اب نیا مسئلہ یہ کہ گھر میں سائیکل چاؤ۔ باہر نہیں لے کر جانی۔ یہ بھی میں کیسے مانتی۔ نانا کے سونے کا انتظار کرنا اور دوسرے دروازے سے سائیکل لے جانی۔ بھائی کو پیچھے دوڑانا اور خود کبھی کہیں ٹکر مار کبھی کسی کو مار میں نے سائیکل چلانے کے مزے لینے۔ وہ الگ بات کہ بھائی کو سائیکل چلانا میں نے ہی سکھائی۔

تو ایسے ہی واقعات کی لمبی فہرست ہے لکھنے بیٹھیں تو کہاں سے کہاں نکل جائیں۔ برادری میں شادی نہیں کرنی۔ ذات پات کو کچھ نہیں سمجھا۔ ہر کمیونٹی کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا۔ گپ لگائی۔ دوستیاں کیں۔ انسان کو انسان سمجھنے پہ توجہ دی۔ شادی کی تو ذات سے باہر کی۔ پسند سے کی۔ ضد کر کے کی۔ اپنے لیے گئے فیصلوں کو ہمیشہ تسلیم کیا۔ چاہے غلط ہوں یا ٹھیک۔ شادی کے بعد جوائنٹ فیملی میں رہ کے ان سب کے رویے برداشت کیے۔ اپنی تعلیم ادھوری چھوٹنے کا غم بھلائے نہیں بھولتا تھا۔

تو شادی کے گیارہ سال بعد کتابیں ملنے پہ جتنی خوشی ملی شاید اتنی خوشی کسی عورت کو زیور کپڑے ملنے پہ ہوتی ہے۔ (عام طور پہ عورتیں زیور ملنے پہ ہی خوش دیکھی ہیں میں نے یا برینڈڈ چیزوں کے ملنے پہ سو ہن کوئی رپھڑ نہ ڈال لے ) ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو گروم کیا۔ جس چیز پہ کسی نے یہ کہا کہ نوشی کو نہیں آتی۔ اسے سیکھا۔ اس کے پیچھے سوچ یہی تھی کہ مجھے کم تر نہ سمجھا جائے۔ (اب تو ان باتوں سے بھی فرق نہیں پڑتا) ۔ یہ واقعی بہت برا لگتا ہے کہ جب گھر کے سب بڑے کسی بات پہ مشورہ کرنے بیٹھیں اور آپ کو کمرے سے نکال دیا جائے۔

آپ کسی بات میں حصہ لیں تو آپ کو کہا جائے تمہیں نہیں پتہ تم چپ رہو۔ میں جانتی ہوں کہ عورت ہر چیز برداشت کر جاتی ہے۔ دو چیزیں اس سے برداشت نہیں ہوتیں ایک اپنی عزت نفس کی تذلیل۔ اور دوجا اس کی اولاد کی تکلیف۔ عزت نفس سخت مجروح ہوتی ہے جب چھوٹی چھوٹی باتوں پہ عورت کو کم عقل بے وقوف اور جاہل سمجھا جائے۔ سن دو ہزار کے بعد جب دنیا تیزی سے بدل رہی تھی۔ نئی نئی ٹیکنالوجیز آ رہی تھیں۔ کمپیوٹر کی دنیا اپنے پیک پہ تھی۔

اور میری زندگی بس گھر اور گھر سے جڑے لوگوں کو راضی کرنے میں تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلا فون لیا، جو کہ والد کی وفات کے بعد ان کے ترکے میں ملنے والے کچھ پیسوں سے خریدا۔ تو اکثر فون پہ میسج ملتا (asl) ۔ میرے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا بلا ہے۔ فیس بک آئیڈی بنائی تو سسرال میں باتیں بنیں کہ نوشی کو تو کسی بات کی لتھی چڑھی (اردو میں لفظ نہیں مل رہا اس کے متبادل) ہی نہیں ہے۔ چند مہینوں بعد انہی سب لوگوں کو میں نے آئی ڈیز بنا کے دیں۔

غرض کہ چل سو چل۔ آج بھی پڑھ رہی ہوں۔ ہنر سیکھتی ہوں۔ کام کرتی ہوں۔ جب سے کام کر رہی ہوں۔ اپنے تمام خرچے خود اٹھائے ہیں۔ فون بلز انٹرنیٹ کپڑے جوتے فیس کسی کو تنگ نہیں کرتی۔ کپڑوں کے معاملے میں بھی تنقید سنی ان سنی کر دیتی ہوں۔ میں کہتی ہوں میری جینز میری مرضی۔ زندگی یہ تحریر لکھنے جتنی آسان نہیں ہے۔ یہ انسان کو پل پل توڑتی ہے۔ خاص طور پہ انسان اگر عورت ہو تو پھر تو بیڑے ہی غرق۔

ان سب باتوں کو لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ کسی کو بھی شرمندہ کرنا ہے۔ یہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جو عورتیں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ دوسروں کے لیے شاید ہمت کا سبب بن جائیں۔ جیسے میں دوسروں سے ہمت لیتی ہوں۔ کیونکہ اس کے بغیر گزارا نہیں۔

آج کی نوشی نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ آگے بھی جانے کتنا باقی ہے کہ بقول میری امی تمہارے تو خواب اتنے بڑے ہیں تو تم ڈپریشن میں کیسے جا سکتی ہو۔ تم تو اپنے خوابوں کے لیے ہی کوشش کرو تو سارے ڈپریشن ختم ہو جائیں۔ اس بات نے ایک بار پھر سے تازہ دم کر دیا ہے۔ کہ ابھی تو پہچان بنانے کا مرحلہ باقی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر تو لوگ بے نام ہی مر جاتے ہیں۔ لوگ آپ کا نام یاد رکھیں یہ اہم بات ہے۔ بقول شاعر

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ہر عورت اس مصرعے کو اپنی زندگی کا موٹو بنا لے تو بات بن جائے۔ روایت شکن عورت بری عورت ہوتی ہے اگر لوگ آپ کو برا کہیں تو سمجھ لیں آپ حق پہ ہیں۔ ڈرے بغیر اپنی منزل کی جانب چلتے رہیں۔