بہت سارے واقعات اس تسلسل سے وقوع پزیر ہوتے ہیں کہ ابھی ایک پہ لکھنے کا سوچتے ہی ہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے۔ شروع کرتی ہوں فیض میلے میں لگنے والے سٹوڈنٹس کے نعروں سے۔ نعرے انقلابی تھے۔ جوش سے بھرپور تھے۔ پچھلے سال بھی ایسے ہی لگے لیکن اس وقت ان کو اتنی پزیرائی نہیں مل سکی۔ بلاشبہ اس بار حبہ اور عروج اورنگزیب کے جوشیلے انداز نے ان نعروں اور سٹوڈنٹس کے مطالبات میں ایک نئی روح پھونکی۔ جونہی یہ نعرے اور عروج کی وڈیو وائرل ہوئی سوشل میڈیا پہ ایک طوفان مچ گیا۔ اب کی بار توپوں کا رخ طلبا کے تمام نظریات و مطالبات سے ہٹ کے عروج کی لیدر کی جیکٹ اور برگر بچوں پہ ہو گیا۔
سب سے پہلے تو مجھے آپ لوگ یہ بتائیں کہ کیا آپ کے ملک میں لنڈا بازار نہیں لگتا؟ اچھا دوسری بات یہ کہ لیدر کی جیکٹ پہن کے آپ نظریاتی نہیں ہو سکتے یا آپ کو نعرے لگانے کا کوئی حق نہیں یہ کہاں لکھا ہے۔ آپ کو دس پندرہ ہزار کی لیدر کی جیکٹ ہزار پندرہ سو کی لنڈے سے مل جائے گی۔ میں نے تو کل ہی شاندار قسم کی جیکٹس ایک ریڑھی پہ دیکھیں۔ ہم میں سے کس نے نہیں دیکھی ہوں گی۔ مڈل کلاس تو چھوڑ ہائی کلاس بھی لنڈے سے جیکٹس و کوٹ خریدتے میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
اب آتے ہیں انتیس نومبر کے سٹوڈنٹس مارچ پہ۔ کم سے کم میں نے لاہور میں ایسا شاندار اور منظم مارچ اس دن سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ کچھ انتظامی غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن بہرحال یہ سٹوڈنٹس کا ایک کامیاب مارچ تھا۔ توقع کے برخلاف لوگ تھے۔ اور پرجوش تھے۔ ہم میں سے کون ہے جو سکولوں، کالجوں و یونیورسٹیوں کی بڑھتی فیسوں سے پریشان نہیں ہے۔ کون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی بہن بیٹی یونیورسٹی میں گریڈذ لینے کے لیے ہراساں ہوتی رہے۔ کون چاہتا ہے کہ اساتذہ یا یونیورسٹی کے رویوں کی وجہ سے ان کا بچہ خودکشی کر لے۔ مشال جیسی موت کون اپنی اولاد کے لیے چاہتا ہے۔ یقینا ہم سب ایسا نہیں چاہتے۔ تو پھر ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم نہ سہی ہمارے بچوں نے یہ ہمت و جرات تو کی۔ اپنے حق کے لیے بولے تو سہی۔
چلیں جی مارچ بھی ہو گیا۔ اب آتے ہیں اس پہ ہونے والی تنقید کی طرف۔ اسلام آباد کے مارچ میں پیش کیے جانے والے ایک تھیٹر پلے کے کرداروں کی تصویر کو وائرل کر کے تنقید کی جا رہی ہے۔ تنقید کا موضوع ہے کہ جی مرد کو کتا بنا کے عورت خوش ہو رہی ہے۔ جبکہ پلے میں طبقاتی نظام کے درجے دکھائے گئے۔ جس طرح طبقاتی نظام ہمارے ہاں ہے کہ جی امیر کے لیے تو تعلیم، صحت، زندگی گزارنے کے لیے الگ اصول ہے۔ جبکہ مڈل کلاس خاص طور پہ غریب کے لیے زندگی مشکل تر ہے۔
ایک اور تصویر میں عورت کی بریسٹ پہ پھبتیاں کسی جا رہی ہیں اور تو اور ہماری ایک ٹویٹر کی مجاہدہ نے بھی اس تصویر کو گھٹیا الفاظ میں ٹویٹ کیا۔ ان کے لیے تو یہی کہوں گی کہ نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی والی مثال سو فیصد آپ پہ درست ہے۔ باقیوں کو یہ کہوں گی کہ بچپن میں اگر اپنی ماں کا دودھ پیا تو وہ بھی ایسی ہی دکھنے والی چھاتیاں تھیں۔ کتا کان لے گیا کی مصداق کتے کے پیچھے مت بھاگیں۔ پہلے کان چیک کر لیں۔
عروج کی لیدر کی جیکٹ ہو یا مری لپ اسٹک۔ اگر ان سے آپ کو جلن ہے تو معاف کیجئیے گا ہم آپ کو جلاتے رہیں گے۔ میں یا مجھ جیسی جتنی خواتین فیس بک پہ یا سوشل میڈیا پہ اگر ایکٹو ہیں۔ بولڈ نظر آتی ہیں۔ تو جناب من ہم نے اس سب کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ دے رہے ہیں۔ ہمیں تو فیملی کی بھی سپورٹ نہیں۔ میں خود جس کے بارے پتہ نہیں کیا کیا باتیں ہوئیں اور ہوتی ہیں۔ لیکن میں نے ہار نہیں مانی نہ ہی ماننی ہے۔ گھر اور فیملی کے پریشر کو برداشت کرنا آسان نہیں۔ جبکہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی بات یا آپ کے زندگی گزارنے کے طریقوں سے ارد گرد کے لوگ آپ کے بارے سوائے منفی باتیں پھیلانے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ لیکن آپ کا ڈٹے رہنا آپ کی بہادری کی علامت ہے۔ دوسروں کے لیے مثال بننے کے لیے پہلے خود جل جل کے مرنا اور پھر جینا پڑتا ہے۔
میرے کردار کو میری تحریروں یا تصویروں سے آپ ہرگز نہیں جج کر سکتے۔ کہ اس کے پیچھے ایک لمبی جدوجہد کی داستاں ہے۔ جو مسلسل چل رہی ہے۔
ایسے ہی عروج اورنگزیب کی لیدر جیکٹ اس کے کردار و نظریات کو خراب نہیں کر سکتی۔ حسنین کا دربوکہ اس کی پہچان بن گیا ہے۔ اور باقی کے سٹوڈنٹس کی لگن اور جوش و خروش سے مجھے یہ یقین ہے کہ یہی ہماری آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ تو کر کے رہیں گے۔
ایک نظارہ تو آپ نے دیکھ لیا ناں
لاہور مارچ میں۔
وہ بقول عامر لیاقت کیسا دیا۔
سو نعروں سے مت ڈریئے صاحب۔
ان کی گونج سے ڈریئے۔