روزانہ کی بنیاد پہ بچوں اور خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات نے دل میں ایک خوف سا بٹھا دیا ہے۔ خوف ریپ ہو جانے یا مار دیے جانے کا تو ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ خوف بھی ہے کہ پھر معاشرہ کیا سلوک کرے گا۔ یہ خوف پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی خواتین میں محسوس کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک غیر ملکی سروے نظر سے گزرا۔ جس میں پوچھا گیا کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے لیے دنیا سے مرد غائب ہو جائیں۔ تو عورتیں کیا کرنا چاہیں گی۔ کوئی کمنٹ ایسا نظر سے نہیں گزرا۔ جس میں یہ کہا جاتا کہ ہمیں سیکس کی آزادی چاہیے۔ اپنی مرضی کے کپڑے پہننے، رات میں باہر پھرنے، اکیلی سڑک پہ واک اور بنا خوف کے گھومنے جیسی خواہشات تھیں۔ میں خود یہ کہتی ہوں۔ کہ میں پاکستان سے باہر اس لیے جانا چاہتی ہوں۔ کہ اپنی مرضی کے کپڑے پہن سکوں۔ اور بنا خوف سڑکوں پہ واک کروں یا ڈانس کروں۔ کوئی رک کے گھورنے یا فحاشی کا الزام لگانے والا دور دور تک نہ ہو۔
مجھے گنتی اور نام دونوں ہی یاد نہیں۔ یاد نہیں رہ سکتے۔ واقعات کا تسلسل یاد بس یہ رکھتا ہے کہ آج فلاں جگہ اتنی عمر کی عورت بچی یا بچہ ریپ ہو گیا۔ کبھی ہیش ٹیگ جسٹس فار زینب ہوتا ہے، کبھی سکینہ، کبھی ماہم اور آج پھر زینب۔ موٹروے کیس پہ ہمارے سی سی پی او نے کہا کہ وہ عورت خاوند سے بنا پوچھے گئی تھی۔ رات کو کیوں نکلی۔ پٹرول کیوں چیک نہیں کیا۔ اس کیس پہ بات کر رہے تھے پتہ چلا کہ گھر میں گھس کے بچوں کے سامنے ماں کو ریپ کر گئے۔ اب وہ گھر میں کیسے رہتی کہ ریپ نہ ہو پاتی۔ یہ کسی نے نہیں بتایا۔ آج ڈھائی سال کی بچی کی خبر آ گئی۔ ریپ تو کیا سو کیا سینہ اور پیٹ بھی چیر دیا۔ کیسے کر لیتے ہو ایسے ظلم ظالمو۔
جنسی ہراسمنٹ کا شکار اس معاشرے کے نوے فیصد بچے ہوتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ کسی نہ کسی حوالے سے عورتیں ہوتی ہیں۔ مرد بھی ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے مرد کی شرح اتنی کم ہے کہ لوگوں کے نزدیک یہ تصور کرنا ہی محال ہے کہ مرد بھی ہراس ہو سکتا ہے۔ لیکن مرد بھی ہوتا ہے۔ پر آٹے میں نمک جتنا۔ عورت جتنا ہوتا تو شاید معاشرہ سدھر جاتا۔
معاشرے کے سامنے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتانا یا ان چیزوں کو سامنے لانا جو ٹیبوز ہیں۔ یہ سب سے مشکل چیز ہے۔ ایسا کرنے والا فحش کہلاتا ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ کس معاشرے کی بات ہے۔ ایسا تو کہیں نہیں ہوتا۔ دوسری جسٹی فکیشن یہ ہوتی ہے کہ اگر کہیں ایسا ہوا بھی ہے۔ تو مغرب میں کیا نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے بھائی مغرب میں بھی ہوتا ہے۔ مغرب میں تو پھر آپ اپنے پارٹنر کو سرعام چوم بھی سکتے ہیں۔ آپ کے یہاں تو میاں بیوی ساتھ جاتے ہوں۔ تو انہیں روک کے نکاح نامہ طلب کر لیا جاتا ہے۔ جیب سے نکل آیا تو ستے خیراں۔ ورنہ پھر خرچہ پانی لگائے بنا جان نہیں چھوٹتی۔ ایسے واقعات اسی معاشرے میں ہوتے ہیں۔ روزانہ ہوتے ہیں۔
والدین اس وقت ایک چیز اپنے دماغ میں ڈال لیں کہ ریاست نے ان کے بچوں کی حفاظت نہیں کرنی۔ بلکہ یہ سمجھ لیں کہ ریاست ہے ہی نہیں۔ آپ نے اپنے بچوں کی حفاظت خود کرنی ہے۔ اس کے لیے جو بھی اقدامات لینے ہیں۔ آپ نے خود لینے ہیں۔ میں نے اپنے بچوں کی رکھوالی کتوں کی طرح کی ہے۔ آپ کو لفظ کتے پہ اعتراض ہو سکتا ہے کریے۔ مگر مجھے نہیں ہے۔ میں نے اپنا چوں کا بچپن تباہ نہیں ہونے دیا۔ میرے کئی فیصلے بظاہر معاشرے کو پسند نہ آئیں۔ مگر معاشرے کو خوش رکھنے کے چکر میں مجھے اپنے بچوں کی حفاظت پہ کمپرومائز قبول نہیں۔ میں نے اور میرے شوہر نے بچوں کے معاملے پہ کسی پہ ٹرسٹ نہیں کیا۔ اس میں سب شامل ہیں۔ سب رشتے دار دوست احباب۔
میں دو سال کی عمر میں بچے کو بتانے لگتی تھی کہ ماما پاپا کے علاوہ کسی کو پپی نہیں کرنے دینی۔ کسی کی گود میں نہیں بیٹھنا۔ ساتھ بیٹھ جائیں۔ کسی سے کچھ لے کر نہیں کھانا۔ کسی کے ساتھ گھر سے باہر نہیں جانا۔ بچوں کے سکول و اکیڈمی کے لیے کبھی رکشہ وین نہیں لگوائی۔ بچوں کا سکول ٹھوکر شفٹ ہو گیا۔ میں نے پیپرز تک بچی کو بھیجا۔ سکول چھڑوا کے نزدیک داخل کروا دیا۔ آپ یہاں یہ لٹھ لے کر آ جائیں کہ یہ تو ہٹلر بننے جیسا ہے۔ تو ایسا نہیں۔ میرے بچے اپنا بچپن مست جی رہے ہیں۔ کھیل کود شرارتیں سوال کرنے کی آزادی پہننے کی آزادی سب کچھ انہیں میسر ہے۔ یہ سب کرنے کے لیے محنت درکار ہے۔
معذرت کے ساتھ کہنا چاہتی ہوں آج کل اکثر والدین وہ ہیں جن کے نزدیک بچے کی ساری ذمہ داری سکول، مدرسے اور استاد نے اٹھانی ہے۔ صبح بچہ سکول گیا۔ سکول سے واپس آ کے ابھی اسے ہوش بھی نہیں ہوتی تو قاری صاحب آ گئے۔ وہ نکل کے گئے تو ٹیوشن کا وقت ہو گیا۔ یا پھر ٹیوٹر گھر آ گیا۔ بس فرائض پورے ہو گئے۔ یہ سب کریں۔ مگر بچے کو کم سے کم یہ تو سکھائیں کہ اسے باہر کیسے رہنا ہے۔ اس یہ اعتماد دیں کہ اس کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہو۔ وہ بنا ڈرے والدین سے شیئر کرے۔ اس کی کمپنی کیسی ہے۔ کیسے دوستوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس پہ نظر رکھیں۔
چھوٹے بچوں کو ایکسٹرا کیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں نوکروں کے سر پہ مت چھوڑیں۔ گھر سے باہر اکیلے مت نکلنے دیں۔ اپنے بیٹوں کی تربیت کریں کہ انہیں لڑکیوں کے ساتھ کیسے رہنا چاہیے۔ مردانگی کے پاٹ مت پڑھاتے رہیں۔ پھر اسی مردانگی کو دکھانے کے لیے مرد ہراسمنٹ اور ریپ جیسے جرائم کا ارتکاب کر لیتا ہے۔
سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور بچوں کے والدین مل کے حکومت پہ اس چیز کا پریشر ڈالیں کہ نصاب کو انسان دوست بنایا جائے۔ نصاب میں یہ شامل کیا جائے کہ معاشرے میں عورت و مرد ایک صنف/جنس کے طور پہ نہیں بلکہ بطور انسان قابل احترام ہیں۔ نصاب میں بچوں کو سیلف اویرنس دی جائے۔ سکولوں میں چھوٹے بچوں کو حفاظتی اقدامات سکھائے جائیں۔ نصاب سے جنگی ترانوں کو نکال کے امن کے گیت شامل کریں۔ جرائم اور ان کی وجوہات پہ بات کی جائے۔ ہراسمنٹ و ریپ جیسے قبیح جرائم کے متعلق آگاہی دی جائے۔
جو سزائیں ان جرائم کے لیے مقرر ہیں کم سے کم ان پہ عمل ہی کروانا ممکن کیا جائے۔ ورنہ کل جو واقعہ ہوا۔ کہ زیادتی کے ملزم کو ضمانت ملنے پہ متاثرہ بچی کے چچا نے عدالت میں گولی مار کے ملزم کو قتل کر دیا۔ یہ روزانہ کی بنیاد پہ ہونے لگے گا۔ پھر اگلی باری قانونی اداروں کی بھی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے جب عوام کو قانون و انصاف پہ اعتماد ہی نہ رہا۔ تو وہ قانون ہاتھ میں لیں گے۔
شدت پسندی اور انتہا پسندی کو ختم کریں۔ معاشرے کو انسانوں کے قابل رہنے کی جگہ بنائیں۔ عورتیں اور بچے بھی انسان ہی تو ہیں۔ خدارا ان کو جینے دیں۔