کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایک سیاہ فام امریکی شاعرہ تھیں؟
کیا آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ انہوں نے ساری عمر عورتوں کے حقوق کی خاطر روایتی فیمنزم ’پدر سری اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ لڑی اور سیاہ فام عورتوں کی جدوجہد میں گرانقدر اضافے کیے۔
اگر آپ ان کے نام اور کام سے واقف نہیں ہیں تو میں آپ کو ان کی ایک نظم کے چند مصرعوں کا ترجمہ سناتا ہوں تا کہ میری طرح آپ بھی ان کے خیالات اور نظریات کو سراہ سکیں۔
یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم اب تک زندہ ہیں
ہم وہ لوگ ہیں
جو اپنے ماتھوں پر
خوف کی لکیر لے کر پیدا ہوئے تھے
ہمیں بچپن میں خوف ماں کے دودھ کے ساتھ پلایا گیا تھا
ہم ایسے ماحول میں پلے بڑھے جہاں
آوازوں کو تشدد اور تعصب سے دبا دیا گیا
ہمیں خاموش کر دیا گیا
یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم اب تک زندہ ہیں
ہر شام جب سورج غروب ہوتا ہے تو
ہم خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ
وہ دوبارہ طلوع نہیں ہوگا
جب ہمیں کھانا ملتا ہے تو
ہم ڈر جاتے ہیں کہ ہمیں بدہضمی ہو جائے گی
جب ہم بھوکے ہوتے ہیں تو
خوفزدہ رہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ کھانا نہیں ملے گا
جب ہمیں محبت ملتی ہے تو
ہم ڈرتے ہیں کہ وہ جلد ختم ہو جائے گی
جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو
گھبراتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ محبت نہیں ملے گی
جب ہم بولتے ہیں تو
ڈرتے ہیں کہ ہماری بات نہ کوئی سنے گا نہ سمجھے گا
جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو
ڈرتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ بولنے کا موقع نہیں ملے گا
اس لیے بہتر ہے
کہ ہم بولتے رہیں
اپنے جذبات احساسات خیالات اور نظریات کا اظہار کرتے رہیں
ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہین
اور یاد رکھیں کہ
یہ ایک معجزہ ہے کہ ہم اب تک زندہ ہیں
۔ ۔
اوڈری لورڈی 1934 میں امریکہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کی پرورش نیویارک کے مفلوک الحال علاقے ہارلم میں ہوئی۔ ان کے والد کا تعلق بارباڈوس اور والدہ کا تعلق گریناڈا سے تھا۔
اوڈری لورڈی کو بچپن سے شاعری کا اتنا شوق تھا کہ جب کوئی ان سے سوال پوچھتا تو وہ جواب شاعری میں دیتیں۔
انہوں نے اپنی نوجوانی میں ہی اپنے آپ کو ایک شاعرہ کی حیثیت سے منوا لیا۔
انہوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور گرین وچ ویلی کے گے اور لیسبین کلچر کا حصہ بن گئیں۔
1969 میں ان کا تقرر لیہمین کالج میں ایک استاد کی حیثیت سے ہوا۔
1977 میں انہوں نے WIFP۔ WOMEN ’S INSTITUTE FOR FREEDOM OF THE PRESS کا آغاز کیا اور بہت سی سیاہ فام شاعرات کو اپنے ساتھ ملایا۔
1980 میں انہوں نے سیاہ فام لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کے لیے
KITCHEN TABLE WOMEN OF COLOR PRESS
کی بنیاد ڈالی۔
1984 میں وہ جرمنی گئیں اور برلن کی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔
جرمنی میں وہ عوام و خواص میں اتنی مقبول ہوئیں کہ ان کے پرستاروں نے ان کے حوالے سے ایک ڈوکومنٹری بنائی جو جرمن فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی۔
اوڈری لورڈی کی کتاب
AGE, RACE, CLASS AND SEX. WOMEN REDEFINING DIFFERENCE
نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس کتاب میں انہوں نے بتایا کہ عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے کن کن محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے
عورت ہونے کے ناتے وہ جنس کے ایک محاذ پر جنگ لڑتی ہیں
مزدور عورت ہونے کے ناتے وہ جنس اور افلاس دو محاذوں پر جنگ لڑتی ہیں
مزدور کالی عورت ہونے کی وجہ سے وہ جنس افلاس اور رنگ و نسل کے تین محاذوں پر جنگ لڑتی ہیں اور
مزدور کالی لیسبین عورت کے ناتے وہ جنس افلاس رنگ اور جنسی ترجیحات کے چار محاذوں پر جنگ لڑتی ہیں۔
اوڈری لورڈی نے سفید فام سرمایہ دار عورتوں پر اعتراض کیا کہ وہ اپنی کانفرنس میں سیاہ فام اور مزدور اور لیسبین عورتوں کو کیوں نہیں بلاتیں۔
اوڈری لورڈی نے روایتی فیمنزم پر تنقید کی۔ انہوں نے پہلے BLACK FEMINISM اور پھر ایلس واکر کے ساتھ مل کر WOMANISM کی تحریک چلائی اور ساری دنیا کو بتایا کہ فیمنزم کا مقصد مردوں سے دشمنی نہیں بلکہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد ہے۔ ان کے حقوق کو نہ ماننے والوں میں مردوں کے ساتھ سفید فام سرمایہ دار عورتیں بھی ہیں۔
اوڈری لورڈی کا موقف تھا کہ جب تک ہم انسانوں کی نفسیات اور سماجیات سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے ہم ان کے مسائل کی بہتر تفہیم نہیں کر پاتے اور اگر مسائل کی صحیح تفہیم نہ ہو تو ان کو حل کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عورتوں کے مسائل کی پیچیدگیوں اور باریکیوں کو سمجھنا ہوگا تا کہ ہم ایک ایسا عادلانہ اور منصفانہ نظام قائم کر سکیں جہاں سب عورتیں عزت نفس سے زندہ رہ سکیں۔
1976 میں ان کی تصنیف کوئلہ COAL بہت مقبول ہوئی۔
1978 میں اوڈری لورڈی کو پستان کا سرطان ہوا۔
چھ سال بعد انہیں پتہ چلا کہ وہ سرطان سارے جسم میں پھیلتے ہوئے جگر تک پہنچ گیا ہے۔ بیماری کے دوران انہوں نے اپنے تجربات کو THE CANCER JOURNALS میں رقم کیا جسے 1981 میں انعام بھی ملا۔
اوڈری لورڈی کا انتقال 58 برس کی عمر میں 1992 میں ہوا۔
انہوں نے تمام عمر انسانی حقوق خاص طور پر مزدور ’سیاہ فام اور لیسبین عورتوں کے حقوق کے لیے مردوں اور عورتوں دونون سے جنگ لڑی اور اپنے خوابوں اور آدرشوں کے لیے عمر بھر قربانیاں دیں۔
اوڈری لورڈی نہ صرف ایک شاعر اور دانشور تھیں بلکہ ایک فعال سیاسی کارکن بھی تھیں۔
ان کی نظم۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم اب تک زندہ ہیں۔ ان کی حساس تخلیقی شخصیت کی عمدہ ترجمانی کرتی ہے۔