سچ بولنا فحش گفتگو میں شمار ہوتا ہے

 

جس معاشرے کے ہم پروردہ ہیں۔ یہاں پہ سچ بولنے کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مرد اس معاملے میں عورت سے تھوڑا سا کم معتوب اس لیے ٹھہرتا ہے۔ کہ وہ عورت نہیں ہے۔ عورت اگر واقعات کو حقائق کو ان کی اصل شکل کے ساتھ معاشرے کو دکھانے کی کوشش کرے تو اس پہ سب سے پہلا الزام گشتی اور دو نمبر عورت ہونے کا لگتا ہے۔ (اگر لفظ گشتی پہ اعتراض ہے تو آپ اس کا متبادل لے آئیے میں وہ لکھ دوں گی) ۔ فاحشہ و حیا باختہ عورت جو معاشرے میں خرابی کا باعث بنتی ہے۔ مرد کو سچ بولنے پہ کبھی گشتا یا دو نمبر نہیں کہا جاتا۔ (کم سے کم میں نے نہیں سنا کوئی کہتا ہے تو مجھے بتا کے میرے علم میں اضافہ کریں ) ۔ مرد کو کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ تو دلال بن گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے فحش گفتگو کرنے والا کہہ دیا جائے گا۔ جیسا کہ منٹو کو کہا جاتا رہا، کہا جاتا ہے۔

مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مجھے کوئی کیا کہتا ہے۔ میں اس خواہش سے بہت آگے جا چکی ہوں جہاں مجھے اچھی عورت بننے کا جنون تھا۔ اچھی عورت کا جو معیار ہمارے سماج میں رائج ہے۔ میں اس پہ دو سو فیصد پوری اترتی ہوں۔ مگر میں اچھی عورت ہونے کے ٹیگ واسطے حقائق کو کالے رنگ میں ڈبو کے چھپا نہیں سکتی۔ چھپانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ اور اب کیوں چھپاؤں۔ جب کہ میں ان کے شور سے تنگ آ چکی ہوں۔ کیا آپ کبھی اپنے اندر کے شور سے لڑے ہیں؟

مختلف واقعات ہیں۔ مختلف عمر کے ادوار ہیں۔ میں خود سے یہ سوال۔ پوچھ پوچھ کے تنگ آ چکی ہوں۔ کہ میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا۔ کیا اس لیے کہ میں آسان ہدف تھی کیونکہ بروکن فیملی سے تھی۔ والدین سر پہ نہ تھے۔ کیا میری دوستانہ طبیعت اس کی وجہ تھی۔ کیا میرا چپ رہنا وجہ تھا۔ یا وہ خوف وجہ تھے جو بچپن سے ایک بچی کے دماغ میں بٹھائے جاتے ہیں۔ کہ بچیوں کو چپ رہنا چاہیے۔ کوئی بھی بات ہو جائے۔ وہ عزت کی خاطر چپ رہیں۔ عزت ہنہہہہ۔

ہماری نانی کو منہ بولیں بیٹے بنانے کا بہت شوق تھا۔ ایسا ہی ان کا ایک منہ بولا بیٹا ایک رکشے والا تھا۔ ایک دن ہم سب کزنز کو چکر لگوانے کے لیے ان کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ ہم لوگ کراچی سے نئے نئے آئے تھے۔ میں بھی کزنز اور بھائی کے ساتھ چلی گئی۔ رکشہ میرے لیے بڑی دلچسپ چیز ہوتا تھا۔ رکشہ فل ہو گیا تو انکل نے مجھے کہا کہ تم آگے میرے ساتھ آ جاؤ۔ میں تمہیں رکشہ سکھاتا ہوں۔ میں بخوشی شوق سے جا کر بیٹھ گئی۔

جب انکل نے میرا ہاتھ پکڑ کے اس میں کچھ پکڑاتے ہوئے کہا اسے زور سے دباؤ۔ اس وقت جو ڈر خوف بے چینی اور بے بسی میں نے محسوس کی۔ اس کا اندازہ آپ میں سے کوئی نہیں لگا سکتا۔ ہاں میں اب بھی اذیت محسوس کر رہی ہوں لکھتے ہوئے۔ خیر گھر واپس آئے۔ میں چپ تھی۔ ایسا دو بار ہوا۔ پھر میں نے چھوٹے بھائی کو کھیلتے ہوئے کہا کہ انکل بڑی گندی حرکتیں کرتے ہیں۔ امی کو بتایا تو مجھے ہی مار پڑے گی۔ اب ہم ان کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ میں منع کروں تو تم بھی منع کرنا ساتھ۔ یوں ہم نے مشترکہ اتحاد سے اپنی جان چھڑائی۔

نرسری کے بچے کو کیا علم کہ اسے اپنے ساتھ بستر میں سلانے والا اس کا ماموں اس کو ساتھ سلا کے کیسی لذت کشید کرتا ہے۔ وہ تو نظمیں سنانے اور کہانیاں سننے میں ہی مگن ہوتی ہے۔ اور گھر والوں کو پتہ چلنے پہ سب سے زیادہ ڈانٹ اس بچی کو پڑتی ہے کہ تم نے بتایا کیوں نہیں۔ بتانا کیا ہوتا ہے یہ کسی نے نہیں سکھایا۔ بس یہ سکھایا کہ بڑوں کی چغلیاں نہیں کرتے۔ بڑے ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔

آپ رات کو سوئے ہیں۔ اچانک آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی قمیض میں کچھ سرسرا رہا ہے۔ خوف اور ڈر سے آپ چیخ مارنے لگیں تو ایک ہاتھ آپ کا منہ زور سے دبا دے۔ اور کان میں سرگوشی ہو کہ یہ میں ہوں انکل طاہر۔ سوچئیے۔ بیوی جو اس مرد کا چوتھا بچہ پیٹ میں لیے آخری دنوں پہ ہے۔ اسی کمرے میں سو رہی ہے۔ ایک کونے میں جوان سالا سو رہا ہے۔ اور سالی کی بھانجی جو اس کی بیوی کی خدمت کے لیے آئی ہے کہ چھلا کٹوا دے۔ اس پہ گندی نیت رکھ لو۔

آنٹی کو بتانے لگی تو ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ سوچا کہ ٹھیک ہوں گی تو بتاتی ہوں۔ مگر پتہ چلا کہ انکل نے کہہ دیا کہ نوشی رات سب کے سونے کے بعد میرے پاس آ جاتی ہے۔ کہ مجھے آپ اچھے لگتے ہیں آپ کے ساتھ سونا ہے۔ اب میں تو اسے اپنی بیٹی سمجھتا ہوں۔ تم بتاؤ کیا کیا جائے۔ سوچئیے ایک پندرہ سالہ لڑکی نے اس سازش کا کیسے مقابلہ کیا ہو گا۔ مگر نہیں آپ کہہ دیں گے کہ میں گئی ہی کیوں۔ نہ میں جاتی نہ یہ ہوتا۔ کیونکہ میں گئی تو قصور میرا ہے معاشرہ تو بہت اچھا ہے۔ اس کی بڑی روایات ہیں۔ سنئیے مزید روایات سنئیے اور سر دھنیے۔

خالہ ہسٹیریا کی مریض تھیں۔ یہ بس میں جانتی ہوں۔ کیونکہ باقیوں کے نزدیک ان پہ جن کا سایہ تھا۔ وہ خوشبو لگا کے بھری دوپہر کسی کچرے والی جگہ سے گزری تھیں۔ سو کوئی جن ان پہ عاشق ہو گیا تھا۔ بعد میں ان جنوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ کمی نہیں ہوئی۔ دو تین ماموں مل کے بھی ان کو قابو نہ کر سکتے تھے۔ آواز بدل جاتی۔ گالیاں اور مار دھاڑ۔ میں نے دو بار انہیں اس حالت میں دیکھا۔ بچی تھی ڈر گئی۔ کچھ نانی نے زیادہ ڈرا دیا۔ تم بال کھول کے اس کے سامنے مت جایا کرو۔ اس کے ساتھ سونا مت۔ یہ نہ ہو تم پہ بھی اثرات آ جائیں۔

ایک دن گھر مہمان تھے۔ خالہ لوگ ہمارے گھر تھے۔ خالہ نے کہا میں آج تمہارے ساتھ سوؤں گی۔ مجھے جتنی سورتیں یاد تھیں۔ سب پڑھ لیں۔ آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ کے دم کیے۔ اور تیسرا کلمہ پڑھتے پڑھتے سو گئی۔ ایک سرسراہٹ ہوئی۔ اور خوف کی ایک لہر نے میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ بھر دی۔ نیند سے ہوش آتے سمجھ آئی کہ خالہ کا ہاتھ قمیض کے اندر سے نکل کے شلوار کی جانب ہے۔ میں نے ہاتھ روکا تو جیسے وہ غرائیں میرا دم نکل گیا۔ میری کیا مجال کہ میں چوں بھی کر جاتی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کہوں۔

ممانی کی بہن کی بیٹی سے میری بہت دوستی تھی۔ چھٹیوں میں ان کے گھر جاتے تھے۔ ایک رات سوئے میں اس کے باپ نے میرا منہ دبا دیا۔ دو تین دن تک میں بہت پریشان رہی۔ پھر میں نے اسے قسمیں دے کر کہا کہ کسی کو بتانا مت۔ مگر تمہارے ابو رات کو میری چارپائی پہ آتے ہیں۔ گندی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس نے مجھ سے پہلے تو خوب لڑائی کی۔ مگر پھر کہتی اچھا اگر یہ سچ ہے تو آج تمہاری چارپائی پہ میں آ جاؤں گی۔ تم میری چارپائی پہ سو جانا۔ مجھے یقین نہیں کہ میرا باپ ایسا کرے۔ خیر ہم نے یونہی کیا۔ اور جب وہی ہوا جو میں نے اسے بتایا تھا۔ تو وہ چیخ پڑی۔ ابو۔

میں نہیں جانتی اس نے باقی زندگی اپنے باپ کا سامنا کیسے کیا ہو گا۔ مگر اسے اس دن اپنے باپ سے نفرت ہو گئی تھی۔ میں جتنے دن ان کے گھر رہی۔ اس نے شیر کی طرح میری حفاظت کی۔ وہ ہاتھ جوڑ کے معافیاں مانگتی تھی۔ اور کہتی تھی امی کو نہ بتانا۔ ہمارا گھر ٹوٹ جائے گا۔ مگر روتی اور معافیاں مانگتی رہتی۔ باپ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ اس کے بعد میں کبھی ان کے گھر رہنے نہیں گئی۔ تب ہم پانچویں میں تھے۔ اس کے بعد میٹرک میں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ تب بھی اس نے کہا کہ میرا ابو سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا۔ میں اسے باپ والا احترام نہیں دے سکتی۔ معاشرے کی اقدار بہت اعلی ہیں۔ دیکھ لیجئیے۔

یہ نہیں ہے کہ ہمارے گھرانوں میں دین سے دوری تھی۔ یہ تو تصور ہی نہیں تھا۔ ٹھڈے مار کے تو نماز کے لیے اٹھایا جاتا۔ قرآن میں نے پونے سات سال کی عمر میں پڑھ لیا تھا۔ دہرائی کے لیے مسجد بھی جاتے تھے۔ روزہ چھوڑنا اپنی شامت بلانے جیسا تھا۔ داتا صاحب اور دیگر درباروں پہ حاضری کی پابندی کی جاتی۔ ان سب چیزوں کے لیے دن کی روشنی تھی۔ رات میں ان کی ڈارک سائیڈز سامنے آتی تھیں۔ جو بھیانک ترین تھیں۔ کم سے کم میرے لیے آج بھی ہیں۔

بازاروں میں، دکانوں پہ چاہے غیر محسوس طریقے سے ہاتھ لگانے والا عمل ہو یا ٹیوشن سینٹر میں سب بچوں کی چھٹی کے بعد آپ کو روک لیے جانا ہی کیوں نہ ہو۔ ہراسمنٹ ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ میں ہی اتنی کوئی حور پری رہ گئی تھی۔ کہ یہ سب میرے اکیلی کے ساتھ ہوا۔ یہ معاشرے کا وہ گندا چہرہ ہے جسے ہماری تہذیب و ثقافت کی جھوٹی نمائش کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ اگر میں نے اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ ہوتے یہ سنا اور دیکھا نہ ہوتا تو مجھے یقین ہوتا کہ مجھ میں ہی کوئی خرابی ہو گی۔ مگر اب مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مجھ میں سب سے بڑی برائی میرا عورت ہونا ہے۔ سینے پہ دو ابھار اور ایک عضو مخصوصہ جس کے حصول کی جنگ میں یہ معاشرہ ہر حد پار کرنے کو تیار ہے۔ چاہے میں زندہ رہوں یا مر جاؤں۔ کیونکہ قبر میں بھی محفوظ تو میں ہوں نہیں۔

مجھے بتایا جاتا ہے کہ سسر اپنی بہو کو ہراس کر رہا ہے۔ ہم عزت کے مارے چپ ہیں کیا کریں۔ حاجی نمازی بندے کی بات ہے کوئی مانے گا نہیں۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ دیور بھابھی کو ہراس کر رہا ہے۔ شوہر کو پتہ ہے مگر اس نے کہا ہے منہ بند رکھو ورنہ طلاق دے دوں گا۔ بچے بھی چھین لوں گا۔ کیا کروں۔ مجھے پتہ چلتا ہے کہ خالہ اور باپ کو سیکس کرتے بیٹی نے دیکھ لیا ہے۔ بیٹی پریشان ہے۔ باپ کا کیا امیج رہ گیا۔ بیٹی کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

خاوند دوسری عورتوں کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے۔ بیوی کو گھر میں لا کے بھول گیا ہے۔ اس کے بھی کچھ حقوق و فرائض ہیں ہیں۔ وہ بیویاں جب اپنے لیے کوئی ہوا کا جھونکا ڈھونڈتی ہیں تو ان کو بدچلن کہہ کے مار پیٹ کی جاتی ہے۔ پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ یہ کہانیاں مجھے سننے کو ملتی ہیں۔ میں سنتی ہوں۔ مقدور بھر مشورہ دیتی ہوں۔ پھر ان لوگوں کی ایک درخواست ہوتی ہے۔ میم آپ ان پہ بھی لکھیں۔ ہم نہیں لکھ سکتے۔ ہم میں جرات نہیں۔ آپ بہت بہادر ہیں۔ آپ ان باتوں پہ بھی لکھیں۔

جب میں لکھتی یوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ تم کیا لکھ رہی ہو۔ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ یہ تو کمیاب کیسز ہیں۔ سارے معاشرے کی نمائندگی تھوڑی کرتے ہیں۔ تم پتہ نہیں کن لوگوں کو ملتی ہو۔ میں جانتی و سمجھتی ہوں کہ میرے متعلق لوگوں کی رائے اچھی نہیں۔ میرے حلقہ احباب میں شامل لوگ میری پیٹھ پیچھے ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم وہ ہے۔ جو کتاب میں لکھا ہے۔ جو بڑے ناموں نے لکھا ہے۔ میں کیا کروں کہ جو تجربات مجھے زندگی نے دیے ہیں۔ ان کو بیان نہ کروں۔ کیا بڑے ناموں والے ادیب انہی معاشروں اسی دنیا کے نہ تھے؟ کیا انہوں نے سماج اور سماج میں بسنے والوں کے مشاہدے بیان نہیں کیے؟

میں تو ابھی تک بھی صرف دس فیصد سچ ہی بیان کر پاتی ہوں۔ سچ لکھنا ان واقعات کو ری کال کرنا آسان نہیں۔ جنہوں نے آپ کی شخصیت کی تعمیر و تخریب میں حصہ ڈالا ہو۔ اپنے بارے میں وہ لکھ دینا جسے چھپانے پہ سماج کی ساری طاقت لگ جاتی ہے آسان نہیں ہوتا۔ بہرحال میرے لیے تو اب یہ کچھ معنی نہیں رکھتا کہ میں جو لکھتی ہوں۔ یہ میرے خاندان میں پڑھیں گے تو کیا ہو گا۔ اس سے برا نہیں ہو سکتا جتنا برا ہو چکا ہے۔ رہ گیا معاشرہ تو اس کے کانوں کو اب ایسی چیخیں سننی پڑیں گی۔ جو عورتوں نے ان کی نام نہاد عزت کی خاطر دبا رکھی ہیں۔ ان سسکیوں کو باہر آنے دیں۔ جنہوں نے سانس کی فراہمی معطل کر رکھی ہے۔ ان چیخوں کو سننے کی عادت ڈالیں۔ کیونکہ یہ اب تسلسل سے آئیں گی۔ میری جانب سے بھی اور میرے جیسی مزید عورتوں کی جانب سے بھی۔ ہم اب مزید نام نہاد عزتوں کی رکھوالی پہ نہیں بیٹھیں گی۔ عزت چاہیے تو عزت کیجئیے۔