اک برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے۔ پر یہ کیسا نئے سال کا سورج طلوع ہوا کہ پوری دنیا کی تاریخ کو بدل کے رکھ دے گا۔ یہ کیسا سال ہے کہ جس میں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں موت کی دہشت اور کرونا وائرس کا خوف نہیں۔ چین سے ہوتے ہوئے ایران، اٹلی، سپین اور امریکہ سے ہوتا ہوا یہ پاکستان تک بھی پہنچ گیا۔ جہاں پہلے پہل تو اس کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ ہم ہی کیا جب امریکی صدر ٹرمپ تک اسے چائنیز وائرس کہہ کے اس کا مذاق اڑاتے رہے۔
جب اس کے اپنے ملک پہنچنے سے پہلے حفاظتی اقدامات کی ضرورت تھی۔ وہاں اسے اتنا ہلکا لیا گیا کہ پی ایس ایل تک منعقد کروا ڈالا۔ دنیا کی تاریخ میں ہر سو سال میں ایک ایسا وائرس ضرور آیا۔ جس نے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنا دیے۔ وائرس آتے رہے۔ ان کی ویکسین بھی بن گئی۔ آج کئی ایسی بیماریاں ہیں جن کا وجود تک ختم ہو چکا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنسدان اس کی ویکسین بھی بنا لیں گے۔ شاید آئندہ آنے والے سالوں میں ہم کرونا کا صرف نام ہی یاد رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہو جائے گا۔
کرونا نے ہماری زندگیوں پہ کیا اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اہم فیکٹر ہے۔ پورے ملک میں لاک ڈاون ہے۔ لوگ گھروں میں بند ہیں۔ کام کاروبار سب بند ہیں۔ ایسے میں سوچنے والوں نے زندگی کے متعلق کیا کیا سوچا اور سمجھا نہ ہو گا۔ عام سی لگنے والی باتیں ایک دم سے اتنی اہم ہو گئیں ہیں کہ ان کے ساتھ ہماری زندگی کی ڈور بندھ گئی ہے۔ جیسے ہاتھ دھونا، ماسک پہننا اور سوشل ڈسٹنسنگ۔ ہماری زندگیوں میں اب روٹی کے ساتھ ساتھ سینیٹائزر بھی ایک اہم جز بن گیا ہے۔
مجھ جیسے لوگ جو وبا سے خوفزدہ بھی ہیں۔ اور وبا کے دنوں میں یہ بھی سوچتے ہیں کہ وبا کے یہ دن گزر جانے کے بعد کی دنیا کیسی ہو گی۔ کیا ہم اسی طرح بے جھجھک اپنے دوستوں رشتے داروں سے گلے مل سکیں گے جیسے کرونا سے پہلے ملتے تھے۔ کرونا سے پہلے تو دوستوں کی محفلیں سجتی تھیں۔ قہقہے لگتے تھے۔ ساتھ کھانے کھاتے چائے پیتے کبھی یہ خیال تک نہیں آتا تھا کہ کسی کو کب چھینک آئی یا کسی کو کھانسی لگی۔ کیا اب سب منہ پہ ماسک پہنے ایک دوسرے کو ملیں گے۔ جن کے پہلے ہی دو چہرے تھے وہ تیسرا چہرہ بنائے نظر آئیں گے۔ وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے نا
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
تو کیا اب ایسے تمام چہرے سجانے والوں کے چہرے پہ ماسک سج جائے گا؟ ہم ایسے لوگوں کا کیا بنے گا۔ جو محبتوں کی پھولوں اور ہواؤں کی باتیں کرتے ہیں۔ جنہیں سوشل ڈسٹنسنگ کرنی پڑ رہی ہے۔ تو ایسے لگتا ہے جیسے وقت رک گیا ہے۔ زمین کی گردش ٹھہر گئی ہے۔ جیسے کسی نے بے وجہ کی قید میں ڈال رکھا ہے۔ اور یہ بھی سمجھا رکھا ہے کہ باہر نکلے تو موت بھی مل سکتی ہے۔ یہ کیسی آفت ہے کہ لوگوں نے محبت کی بات کرنا چھوڑ دی ہے۔
محبوب کی زلفیں اور آنکھیں بھلا دی ہیں۔ ہونٹوں پہ بوسوں کو موت آ گئی ہے۔ کہ اب بوسے سے پہلے کرونا کا نام ذہن میں آتا ہے۔ کیا وہ بے فکری کے بوسوں کی چاہت کو بھی موت آ گئی ہے۔ کیا محبوب کے ساتھ وقت گزارنے کو بھی سوچنا پڑے گا۔ کرونا سے پہلے کی دنیا چاہے جیسی بھی تھی۔ اس میں محبتوں کے رنگ نمایاں تھے۔ کرونا کے بعد کی دنیا میں کیا ہونے والا ہے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ محبتوں کے بسنتی رنگ ویسے ہی کھلیں گے یا پھر وبا کی نذر ہو کے پھیکے پڑ جائیں گے۔