گھر کی چار دیواری عورت کے لیے جنت ہے، شرم اس کا گہنا ہے۔ ایک مرد باہر دھوپ میں کمانے جاتا ہے، محنت کرتا ہے، دھکے کھاتا ہے آخر کس لیے؟ ایک عورت کو چین اور سکون کی زندگی دینے کے لیے نہ؟ وہ آخر کیوں ایسا کرتا ہے؟
کیوں کہ وہ اس عورت سے بے پناہ محبت کرتا ہے؟ اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی محبت شہر کی گلیوں میں کسی غیر مرد کی نظروں کا نشانہ نہ بنے۔ وہ عورت کو اپنی جنت کی مالکہ بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔
یہ مثالی گھر مثالی سوچ، ایک اچھے مرد کا خاکہ پیش کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی اچھی عورت کیسی ہونی چاہیے اس کا بھی۔ مگر اسے مثالی کس نے بنایا؟
کیا واقعی عورت کی اصل جگہ ایک گھر ہے؟ چار دیواری اس کی جنت ہے؟
یہ سوچ ہمیں کس نے دی؟
کیا مذہب نے دی؟ کہ جنت سے پھل توڑ کر کھانے والی عورت تھی اور اگنی پرکشا دینے والی بھی عورت؟ اور اس طرح وہ کمزور کہلائی گئی؟
یہ سوچ ہمیں کس نے دی؟
کیا مذہب نے دی؟ کہ جنت سے پھل توڑ کر کھانے والی عورت تھی اور اگنی پرکشا دینے والی بھی عورت؟ اور اس طرح وہ کمزور کہلائی گئی؟
یا پھر تاریخ نے دی؟ کہ ٹورجن وار سے لے کر مہابھارتا اور رامائن تک جو بھی جنگیں لڑی گئیں سب عورت کی وجہ سے تھیں اور اس طرح وہ فتنہ کہلائی گئی؟
یا پھر فلسفے نے؟ کہ جس طرح ارسطو نے کہا کہ مرد ایک حقیقت پسند جانور ہے اور جبکہ عورت ایک جذباتی جانور ہے، عورت میں حقیقت پسندی کم ہے تو لہذا وہ مرد سے کم تر مانی گئی۔
نازک، جذباتی، کمزور، کم عقل، معافی اور درگزر کا مجسمہ، وغیرہ جیسے الفاظ سے اس جنس کی پہچان بنتے چلے گئے۔
آج بھی بیٹی کوئی بڑا کام کرتی ہے تو اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ”یہ میرا بیٹا ہے“۔کیوں کہ ہماری روایتی سوچ ہمیں بیٹی کو بیٹی بن کر ہی مضبوط اور کامیاب ہوتا ہوا قبول نہیں کر سکتی۔ مگر وہیں ایک بیٹے کے لیے یہ الفاظ کہ ”یہ میری بیٹی ہے“ خاصہ ناگوار سا محسوس کیا جاتا ہے۔
چلیں اب موجودہ لاک ڈاؤن کی مدد سے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ کرونا وائرس کے بعد نئے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں پچیس فیصد گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور تشدد کا اکثر و بیشتر نشانہ عورت ہے۔
عورت دوست این جی اوز اور گورنمنٹ عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ”فارمیسی کے دکانوں پر کوڈ ورڈز کا استعمال، موبائل سے شکایات کا درج کرنا اور ہاسٹل فراہم کرنے کے انتظام کر رہی ہیں۔
ایسا کیوں؟
اس قرنطینہ نے ایسا کیا بدل دیا؟
کیا واقعی مرد کی فطرت میں ہے گھر سے باہر رہنا یا مرد نے خود یہ نظام اور فطرت تخلیق کی تھی اپنے لیے؟ کہ آج گھر میں بیٹھنے کی باری آئی تو تلملا سا گیا۔ اس کی آزادی خطرے میں پڑ گئی
اس قرنطینہ نے ایسا کیا بدل دیا؟
کیا واقعی مرد کی فطرت میں ہے گھر سے باہر رہنا یا مرد نے خود یہ نظام اور فطرت تخلیق کی تھی اپنے لیے؟ کہ آج گھر میں بیٹھنے کی باری آئی تو تلملا سا گیا۔ اس کی آزادی خطرے میں پڑ گئی
اب ذرا سوچیں ایک عورت جو صدیوں سے چار دیواری کی زینت کہلائی گئی ہے اب اس چا دیواری میں مرد کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
جب ایک عورت پر گھر سے باہر نکلنے پر پاپندی عائد ہوتی تو وہ اندر ہی اندر چیختی ہے مگر کوئی نہیں سنتا
اب کوئی اس مرد سے پوچھے کہ اس بیس سے پچیس دن کے لاک ڈاؤن میں اسے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
”تم سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہو“ پوچھنے والے مرد سے اب کوئی پوچھے آج ان بچوں کے شور اور گھر کے سو کاموں کو دیکھ کر اسے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
اب کوئی اس مرد سے پوچھے کہ اس بیس سے پچیس دن کے لاک ڈاؤن میں اسے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
”تم سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہو“ پوچھنے والے مرد سے اب کوئی پوچھے آج ان بچوں کے شور اور گھر کے سو کاموں کو دیکھ کر اسے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
جب عورت کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا آج جب حالات نے کروٹ بدلی تو سیفٹی احکامات کی بدولت مرد کو بھی اپنے کاروبار کے یا گھر سے باہر نکلنے کے فیصلے خود نہیں کر پا رہا تو اب اسے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
جب عورت کو پاگل، نفسیاتی، اور ڈپریشن کی مریضہ اور جذباتی قرار دے کر الگ کر دیا جاتا ہے آج اسی آئسولیشن کا شکار ہو کر مرد کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
اس تحریر کا مقصد ہر گز یہ ثابت کرنا نہیں کے تمام مرد ایک سے ہیں اور اس قرنطینہ میں گھر پر رہ کر لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ بتانا یہ تھا کہ عورت صدیوں سے قرنطینہ میں ہے اور یہ قرنطینہ مذہب، ثقافت اور معاشرے نے مسلط کر رکھا ہے۔ اور جو خواتین اس قرنطینہ سے اکتا چکی ہیں اور آزادی کی لڑائی لڑ رہی ہیں انہیں اسی کلچر اور معاشرے میں الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ آج ہر وہ شخص جو اپنے گھروں میں لاک ڈاؤن ہے آزادی کی دعا مانگ رہا ہے۔ کیونکہ ”آزادی“ ”انسان“ کا بنیادی حق ہے۔ ۔ مگر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اور مرد میں ”انسان“ کون ہے؟