واشنگٹن —
رمضان کا مہینہ مسلمانوں کیلئے خاص اور انتہائی مقدس ہے جس میں عبادت بڑھ جاتی ہے اور نیکی کی جستجو بھی، تراویح جیسی اجتماعی عبادت کا خاص اہتمام کیا جاتاہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دنیا بھر کے مسلمان اس ماہِ مقدس کے استقبال کی تیاریوں میں ہیں مگر کرونا وائرس کی وبا نے ان تیاریوں کی نوعیت تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔
معاشرتی فاصلے کے ان دنوں میں افطار اور سحر کے اجتماعات ممکن نہیں رہے۔
خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد مسلمانوں کے تیسرے بڑے مذہبی مقام مسجدِ اقصیٰ میں 23 مارچ سے با جماعت نماز کا سلسلہ بند ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ پابندی ماہِ رمضان میں بھی جاری رہے گی۔
الجزیرہ نیٹ ورک نے خبر دی ہے کہ اردن کے منتخب کردہ یروشلم اسلامی وقف نے جو اسلام کے مقدس مقامات کا نگران ہے، اس فیصلے کو تکلیف دہ قرار دیا ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ یہ اقدام قانونی فتوے اور میڈیکل ہدایات کے عین مطابق ہے اور مسلمانوں کو اپنے تحفظ کیلئے گھر پر نماز پڑھنی چاہیئے۔ مغربی کنارے میں تمام مسجدیں 12 مارچ اور غزہ کی پٹی میں 25 مارچ سے بند ہیں۔
رمضان کی آمد کے ساتھ نماز تراویح کی ادائیگی پر تشویش یہاں امریکہ میں بھی موجود ہے اور ہر ریاست میں بڑے اسلامی ادارے اس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں کہ کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔
ورجینیا میں سنٹر فار اسلام اینڈ پبلک پالیسی کے ایگزیکٹیو ڈئیریکٹر ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں کہ اصل صورتِ حال بہت افسوسناک ہے۔ کرونا وائرس سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ لوگ دعائیں کر رہے ہیں اور مزید یہ کہ مسلمان، یہودی، مسیحی یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، سب کی اجتماعی عبادت پر بندش ہے۔ مسلمان بھی مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے اور جمعہ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اور اگر ایسے ہی حالات رہے تو 23 اپریل کو رمضان شروع ہونے کے بعد اگر مسجدیں نہ کھلیں تو لوگوں کو تراویح مسجد میں پڑھنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
سال 2017ء کے ایک اندازے کے مطابق، امریکہ میں 2104 مساجد تھیں اور چونتیس لاکھ سے زیادہ مسلمان جو امریکہ کی کل آبادی کا ایک فیصد بنتے ہیں۔ امریکہ میں پہلی مسجد البانوی مسلمانوں نے 1915ءمیں ریاست مین میں تعمیر کی۔ امریکہ کی قدیم ترین مسجد 1934ء میں سیڈر ریپڈ آئیووا میں تعمیر کی گئی جہاں آج بھی نماز پڑھائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ میں جو مختلف ادارے، مساجد اور تنظیمیں ہیں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کی ریاست یا مرکزی حکومت کسی پابندی کا اعلان کرے گی تو اس پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ عبادت کا اجر بہت زیادہ ہے مگر انسانی جان بھی اللہ کو بہت پیاری ہے؛ چنانچہ اصولی طور پر یہ طے کر لیا گیا ہے کہ رمضان میں ایک تو یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ دیکھیں اگر ان کی ریاست میں نظام کھل جاتا ہے تو ٹھیک ورنہ گھروں میں نماز تراویح ادا کریں جیسے کہ وہ جمعے کی نماز گھر پر پڑھ رہے ہیں۔
رمضان ایسا مہینہ ہے جب مسلمان جی کھول کر خیرات کرتے ہیں زکواة دیتے ہیں۔ افطار پاٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد بخاری نے کہا کہ کسی مسلمان کے لئے افطار کا انتظام کرنا اجر و ثواب کا حامل ہے اس لئے مختلف مساجد اور اکنا کی مرکزی مسجد نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں سے اپیل کی جائے کہ اگر وہ کمیونٹی افطار کے لئے عطیہ دینا چاہتے ہیں تو جمع کروا دیں، تاکہ کمیونٹی میں جو لوگ مشکل میں ہیں خواہ مسلمان یا غیر مسلم ہوں، ان کے لئے راشن کا بندوبست کیا جائے اور ان کے گھروں تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ رمضان ایسے ہی گزرے گا۔ اکنا ریلیف اور دیگر فلاحی تنظیمیں فطرانہ، زکواة اور صدقہ جمع کریں گی اور پہلے تو مسجدیں روزانہ تین، چار سو اور کبھی ہزاروں روزہ داروں کے افطار کا اہتمام کرتی تھیں اب یہ رقوم جمع کر کے لوگوں کے راشن کا اہتمام کریں گی۔
یہ پہلی بار ہے کہ رمضان لاک ڈاؤن اور معاشرتی فاصلے کی پابندیوں میں شروع ہو رہا ہے۔ مگر تقریباً تمام مسلم ممالک میں مذہبی رہنما لوگوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس مہینے میں محبت، رواداری، فراخ دلی اور درگزر کو فروغ دیں اور ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جو گھروں میں بند ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
تیونس، مراکش، سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، اردن، عراق اور متحدہ عرب امارات میں حکام نے مسجد جانے پر یا تو مکمل پابندی عائد کردی ہے یا محدود تعداد میں لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔
اذان پانچوں وقت دی جا رہی ہے مگر بعض ملکوں میں ان الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ "نماز اپنے گھر پر پڑھیں"۔
کچھ بھی ہو رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ دعا کا موقع ہے، کہتے ہیں دعا عرش ہلا دیتی ہے۔ تو کرونا وائرس کی وبا کا خاتمہ بھی کر سکتی ہے۔