ہمارے واقف کاروں میں ایک خاتون کی حال میں طلاق واقع ہوگئی۔ سیاق و سباق کی تکمیل کے واسطے یہ بتا دیں کہ ان خاتون کی عمر چالیس سال سے کچھ اوپر ہو گی اور وہ اپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط ازدواجی زندگی میں بے اولاد ہی رہیں۔ ان کا نام حریم فرض کر لیجیے۔ حریم تعلیم یافتہ ہیں اور برسر روزگار ہیں۔ حریم جس شہر میں مقیم ہیں وہاں ان کے قریبی عزیز اور بہن بھائی موجود نہیں۔ حریم کے رشتہ داروں میں اس شہر میں فقط ایک رشتہ دار خاتون اپنے کنبہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
حریم کی اپنے (سابقہ) شوہر کے ساتھ زندگی کچھ اس نہج پر گزری کہ اس شہر میں، جہاں وہ شادی کے بعد آ کر آباد ہوئی، وہ کوئی تعلقات نہ بنا پائیں۔ اس کی بڑی وجہ اس کے شوہر اور سسرالی خاندان کی لوگوں پر بد اعتمادی تھی۔ حریم کا خیال تھا کہ غیروں سے ملنا جلنا چھوڑنے سے اگر گھریلو سکون قائم رہے تو برا سودا نہیں۔ لہذٰا وہ بھی اپنے کام، گھر داری اور شوقیہ مطالعہ میں وقت گزارنے کو ترجیح دینے لگی۔ اس کے میکے کے کچھ دور پار کے تعلق دار اس شہر میں آباد تھے اور ان کا اس کے سسرال میں آنا جانا بھی تھا۔
حریم اپنے سسرال کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کے باعث ان کے ساتھ بھی تعلق نہ رکھ سکی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ لوگ اس کے سسرال سے بہتر طور پر واقف ہیں اور سمجھ جائیں گے کہ حریم کی طرف سے سرد مہری کیوں ہے۔ خیر یہ وقت گزر گیا اور وہ دن آگیا جب نامساعد حالات کی وجہ سے وہ اپنے شوہر سے علیحدہ ہو گئیں اور شوہر نے ان کو طلاق دے دی۔ یہ سب اتنا آنًا فانًا ہوا کہ نہ تو وہ کوئی منصوبہ بندی کر پائی اور نہ شہر میں موجود گنے چنے واقف کاروں کو اعتماد میں لے سکی۔
حریم کے لئے سب سے بڑا امتحان اس بحران کے بعد اپنی زندگی کو ڈگر پر لانا تھا۔ اس نے کچھ وقت اپنی رشتہ دار خاتون کے ہاں گزارا۔ اور پھر جیسے تیسے اپنے رہنے کے لئے جگہ کرائے پر لے لی۔ اب اس کا سب سے بڑا مسئلہ نئے سرے سے، اپنی نئی حیثیت میں تعلقات بنانا اور پہلے سے موجود تعلقات کو برقرار رکھنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت اب معاشرے میں عورت کو انسان سمجھا جاتا ہے۔
اب معاشی طور پر خود کفیل لیکن تنہا عورت معاشرے میں ویسے ہی قابلِ قبول ہے جیسے کہ اس طرح کا کوئی مرد۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے بڑے شہر کی باسی ہونے کی رعائیت سے اس کو اس طرح کے رویہ کی توقع بڑھ گئی۔ اس حقیقت نے کہ تمام جاننے والوں کے گھروں میں خواتین اور لڑکیاں شہر کی بودوباش اور طور طریقوں میں جذب دکھائی دیتی تھیں، حریم کے اس خیال کو تقویت دی۔
پہلے پہل جب حریم نے محسوس کیا کہ لوگ اس سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں تو اس نے اس کو اپنا وہم جانا۔ لیکن پھر واقعات کے تواتر نے اس بات کو ثابت کردیا کہ یہ وہم نہیں۔ اس کو اندازہ ہو گیا کہ لوگ اس سے میل ملاقات نہیں بڑھانا چاہتے۔ کچھ چیدہ چیدہ مثالیں یہ ہیں۔ سب سے پہلے کچھ اس کی ہم عمر شادی شدہ خواتین نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اپنی جاب، بچوں اور گھر کی ذمہ داریوں کا بہانہ بنا کر وہ اس سے دور دور رہنے لگیں۔
پھر اس کے میکے کے تعلق دار لوگوں میں سے ایک خاتون نے اس کو احساس دلایا کہ اس نے اپنے شوہر کو چھوڑ کر کتنی بڑی غلطی کی ہے اور اس کا شوہر (باوجود اس کے کہ اس کے بہن بھائی اس شہر میں موجود ہیں ) کس قدر تنہا ہو گیا ہے۔ اس کے شوہر کی بے چارگی اور تنہائی کا رونا رونے کے بعد انھوں نے حریم سے کہا کہ اس کو کوئی بھی ضرورت ہو تو ان کو کہہ دے اور پھر وہ منظر سے غائب ہو گئیں۔ کچھ دن کے بعد پاکستان میں مقیم حریم کے ماموں نے اپنے ایک پرانے اور گہرے دوست کے بارے میں حریم کو بتایا کہ وہ بھی اتفاق سے حریم کے شہر میں ہی مقیم ہیں۔ اور یہ کہ وہ حریم کو کال کریں گے اور اپنی بیگم کے ساتھ ملنے بھی آئیں گے۔
ان صاحب نے حسب وعدہ کال کیا۔ فون پر بات چیت میں معلوم ہوا کہ وہ حریم کے مرحوم والد اور کے بھائیوں کو بھی جانتے ہیں اور حریم کے بچپن میں اس کے گھر آتے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے حریم سے اس کی رہائش اور گھر کے دیگر افراد اور شوہر اور بچوں کے بارے میں پوچھا۔ حریم نے بتایا کہ وہ اس وقت تنہا ہے اور یہ کہ یہ سوال تفصیل طلب اور جواب پیچیدہ ہے۔ انھوں نے اپنا وعدہ دہرایا کہ وہ اپنی بیگم کو لے کر ملنے آئیں گے اور یہ کہ ان کے ہوتے ہوئے حریم کو اپنے آپ کو تنہا نہیں محسوس کرنا چاہیے۔ وہ اس کے ماموں کی جگہ ہیں۔ اس کے بعد وہ بھی منظر سے غائب ہو گئے۔
اب حریم کو یقین ہو گیا کہ وہ اپنی اس نئی حیثیت میں قابلِ قبول نہیں۔ اس کی جو وجوہات اسے سمجھ میں آئیں وہ یہ تھیں۔ اس کی قابلِ قبول شکل، درمیانی عمر، با روزگار ہونا، بے اولادی اور سب سے بڑھ کر اس کا عورت ہونا۔ ان خصوصیات کے ایک ساتھ موجود ہونے کے باعث وہ غالبًا ہر عمر کی عورت کے نزدیک اس کی ازداجی زندگی کے لئے خطرہ تھی۔ اس کو اندازہ ہوا کہ زیادہ تر عورتیں اپنے شوہر پر اور اپنی ازداجی زندگی پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔
ان نشانیوں کے علاوہ اس کی کوئی پہچان نہیں۔ اب حریم حیران اور پریشان ہے کہ وہ اس معاشرے میں اپنی جگہ کیسے بنائے۔ اس کو یہ بھی خیال ہے کہ لوگوں کی ہچکچاہٹ بالکل بے بنیاد نہیں۔ اگر آپ کے پاس اس کے تجربات کو جھٹلانے کا کوئی سامان ہے اور آپ نے اس جیسی کسی خاتون کی، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مدد کی ہو، اور وہ خاتون آپ کے گلے نا آن پڑی ہو تو ضرور بتائیں تاکہ حریم کو یہ تسلی ہو کہ آہستہ، آہستہ ہی سہی، عورت کو انسان سمجھنے کی طرف سفر جاری ہے۔ اگر ایسی مدد آپ کے گلے پڑ گئی ہو تو اس کا ذکر بھی کر دیں تاکہ پانی کی گہرائی کا اندازہ ہو جائے۔