کیا انڈیا میں ایک معیاری وقت غریب بچوں کے معیار تعلیم پر منفی اثرات ڈال رہا ہے؟

انڈیا کا ایک معیاری وقت یا ایک ٹائم زون میں ہونا برطانوی راج کی میراث ہے اور اسے ملک میں اتحاد کی نشانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ البتہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اتفاق نہیں کرتے کہ انڈین سٹینڈرڈ ٹائم ایک اچھا خیال ہے۔ 

ایسا کیوں؟ 

انڈیا مشرق سے مغرب تا تین ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا وسیع ملک ہے اور تقریباً 30 ڈگری طول البلد پر مشتمل ہے۔ اس کے مطابق انڈیا میں شمسی وقت (وقت کا دورانیہ جو سورج کی حرکت سے متعین ہوتا ہے) اس کے لحاظ سے دو گھنٹے کا فرق آنا چاہیے۔ 

اس کا موازنہ امریکہ کی دو ریاستوں، نیویارک اور یوٹاہ، سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ دونوں ریاستیں ایک ٹائم زون میں ہوں تو کیا ہو۔ تاہم ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ امریکہ کے برعکس، انڈیا میں اس سے ایک عرب لوگ متاثر ہوتے ہیں جن میں سے کروڑوں لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے:

شمالی کوریا نے اپنا وقت تبدیل کر دیا

’نصاب میں خواتین کی بہترین فگرز دینے پر تنازع‘

پاکستان کا وقت کب کب بدلا گیا؟

انڈیا کے انتہائی مغربی علاقے کی نسبت مشرقی انڈیا میں سورج دو گھنٹے پہلے طلوع ہوتا ہے۔ ایک ٹائم زون کے ناقدین اس حوالے سے دو ٹائم زون متعارف کروانے کے حق میں ہیں تا کہ مشرقی انڈیا کے لوگ سورج کی کرنوں کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ مشرقی انڈیا میں لوگ مغرب کے مقابلے میں جلد اندھیرا ہو جانے کی وجہ سے بجلی کا استعمال جلد شروع کر دیتے ہیں جس سے وہاں بجلی زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ 

مانیپورتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionساینسدانوں کے مطابق مانیپور میں ایک مختلف ٹائیم زون ہونا چاہیے

سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے اوقات ہمارے اندر جسمانی، ذہنی اور رویوں کے معمول کو متاثر کرتی ہے۔ تاریکی ہونے کے ساتھ ہی ہمارا جسم نیند کا ہارمون میلاٹونن پیدا کرتا ہے جس سے لوگوں کو نیند آنے میں مدد ملتی ہے۔ 

امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی میں ماہر اقتصادیات مولک جگنانی کی نئی تحقیق کے مطابق ایک ٹائم زون نیند کے معیار کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے اور خصوصی طور پر یہ غریب بچوں پر زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے پیش نظر معیارِ تعلیم بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ 

انڈیا بھر میں سکول جانے کے اوقات تو ایک جیسے ہیں مگر جہاں سورج دیر سے غروب ہوتا ہے وہاں بچوں کو نیند پوری کرنے کا کم وقت ملتا ہے۔ سورج غروب ہونے میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے بچوں کی نیند کے اوقات میں 30 منٹ کی کمی ہو جاتی ہے۔ 

انڈیا ٹائم سروے اور نیشنل ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے اعداد وشمار کا استعمال کرتے ہوئے مولک جگنانی نے یہ دریافت کیا کہ جہاں سورج تاخیر سے غروب ہوتا ہے وہاں کے بچوں کو نسبتاً تعلیم کے کم سال ملتے ہیں اور وہ بیشتر اوقات پرائمری اور سیکنڈری سکول مکمل نہیں کر پاتے۔ 

انڈین مرد ہتھ گاڑی چلاتے ہوئےتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionپیشن گوئی کے مطابق انڈیا کو تقریباً 4.2 ارب ڈالر کا سرمایہ میں فائدہ ہوگا اگر وہ ایک ٹائیم زون سے دو ٹائیم زون پر منتقل ہوجائیں

انھوں نے یہ دریافت کیا کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے اوقات سے متاٰثر ہونے والی نیند کا گہرا اثر خصوصی طور پر غریب بچوں پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر خصوصاً اُن گھرانوں پر پڑتا ہے جن کے مالی حالات اچھے نہ ہوں۔ 

انھوں نے بتایا کہ ’غریب گھرانوں میں نیند کے ماحول کو متاثر کرنے والے عوامل میں شور، گرمی، مچھر، زیادہ افراد کا ہونا اور بے آرامی شامل ہیں۔ غریبوں کے پاس شائد وہ مالی وسائل نہ ہوں جن سے وہ گھر میں آرام دہ نیند کے لیے کھڑکیاں لگوائیں، مختلف کمروں کا انتظام کریں یا نیند کے اوقات میں تبدیلی لے کر آئیں۔‘

’اس کے علاوہ غربت کے نفسیاتی مضمرات بھی ہوسکتے ہیں جیسے کہ ذہنی دباؤ، منفی سوچ اور فیصلہ سازی میں خلل ڈالنے والا ذہنی دباؤ بھی ان میں شامل ہیں۔‘

مولک جگنانی کا کہنا تھا کہ تفصیل میں جائے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گر انڈیا ایک ٹائم زون سے دو ٹائیم زون پر منتقل ہوجائے تو اسے تقریباً 4.2 ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ دو ٹائم زون سے مراد مغربی انڈیا کے لیے جی ایم ٹی +5 اور مشرقی انڈیا کے لیے جی ایم ٹی +6 کردیا جانا ہے۔ 

انڈیا میں دو ٹائم زون پر منتقل ہونے کی بحث ایک عرصہ دراز سے چل رہی ہے۔ 

1980 کی دہائی کے آخر میں توانائی کے ایک بڑے ادارے کی تحقیقاتی ٹیم نے بجلی بچانے کے لیے ٹائم زون کا ایک نظام تجویز کیا تھا۔ سنہ 2002 میں ایسی ہی ایک تجویز کو حکومتی حکام نے پیچیدہ ہونے کی بنیاد پر رد کردیا۔ کچھ ماہرین کی رائے میں اس بات کا خطرہ تھا کہ دو محتلف وقت ہونے کے پیش نظر ریلوے حادثات میں اضافہ ہوجائے گا۔ 

انڈین لوگ ایک کشتی میں سوارتصویر کے کاپی رائٹAFP

گذشتہ سال انڈیا کے سرکاری ٹائم رکھنے والوں نے بھی دو ٹائم زون کی تجویز دی جس کا ایک حصہ انڈیا کے بیشتر علاقوں پر رائج ہو جبکہ اس کا دوسرا حصہ شمالی مشرق کی 7 ریاستوں پر لاگو ہو۔ ان دونوں ٹائم زون میں ایک گھنٹے کا فرق رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔ 

انڈیا کی نیشنل فیزیکل لیبارٹری سے منسلک محققین کی رائے میں ایک ٹائم زون کی بدولت لوگوں کی ’زندگیاں بری طرح متاثر‘ ہوتی ہیں۔ سورج جلد طلوع ہونے کے باعث سکول اور کام کرنے کے اوقات میں تو کوئی تبدیلی نہیں آتی جس کی وجہ سے سورج کی کرنوں کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ سردیوں میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہو جاتا ہے کہ کیونکہ سورج جلد غروب ہونے کے باعث بجلی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ 

اس کہانی سے یہی سبق ملتا ہے کہ نیند کا تعلق آپ کے کام کرنے کی صلاحیت سے ہے اور ایک غیر منظم ٹائم زون لوگوں کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے، خصوصاً غریب بچوں کے لیے۔