ماہرِ نفسیات کی ڈائری : میاں بیوی جنس سے بیزار کیوں ہو جاتے ہیں؟


ڈاکٹر خالد سہیل
پچھلے ہفتے اپنے کلینک میں ایک شادی شدہ جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ وہ چند مہینوں کے انتظار کے بعد اپنے ازدواجی مسئلے کے حل کے لیے مجھ سے ملنے آئے تھے۔ جب میں نے شوہر سے علیحدگی میں ملاقات کی تو وہ کہنے لگے
”میری جنسی ضرورت عام مردوں سے زیادہ ہے۔ میں دن میں دو مرتبہ بیوی سے مباشرت کرنا چاہتا ہوں لیکن میری بیوی کی جنسی خواہش عام عورتوں سے کم ہے۔ وہ مہینے میں صرف دو مرتبہ میرے ساتھ ہم بستری کرنا چاہتی ہے۔ یہ ہمارا جنسی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے علاوہ ہمارا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اپنے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس مسئلے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں؟ “۔
میں نے بیوی سے علیحدگی میں ملاقات کی تو وہ کہنے لگیں
”میں اپنے شوہر کو پسند کرتی ہوں لیکن میرے لیے ان میں کوئی جنسی کشش باقی نہیں رہی۔ میں بیوی کا فرض نبھانے کے لیے ان کے ساتھ سوتی ہوں لیکن یہ فرض میں مہینے میں دو دفعہ سے زیادہ نہیں نبھا سکتی۔ “
”کیا آپ اپنے میاں سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہیں؟ “
”نہیں۔ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ میں ان کی عزت کرتی ہوں۔ ان سے محبت کرتی ہوں۔ بس ان کے ساتھ مباشرت نہیں کرنا چاہتی“
میں نے پچھلے تیس برسوں میں اپنے کلینک میں نجانے کتنے جوڑوں کی تھراپی کی ہے جن کی شادیاں SEXLESS MARRIAGES بن چکی تھیں۔ ایک بیوی تو پانچ سال سے اپنے شوہر کے ساتھ نہ سوئی تھی۔ بعض شادی شدہ جوڑوں میں میاں جنسی طور پر روٹھ چکے تھے اور بعض میں بیویاں جنس میں دلچسپی کھو چکی تھیں۔
نجانے کتنے مرد اور عورتیں ساری عمر یہ سوچتے رہتے ہیں
جنس کا محبت سے کیا تعلق ہے؟
اور ان دونوں کا شادی سے کیا تعلق ہے؟
جب لوگ شادی کرتے ہیں تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے، ان کا یہ خواب ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں شادی، محبت اور جنس یکجا ہو جائیں گے۔ بعض شادیوں میں وہ چند مہینوں یا چند سالوں کے لیے یکجا ہو بھی جاتے ہیں لیکن پھر شادی سے یا محبت غائب ہو جاتی ہے یا جنس اور وہ اپنے آپ کو ایک دوراہے پر کھڑا پاتے ہیں۔ بہت سے شادی شدہ جوڑے تو اندر ہی اندر سلگتے اور کڑھتے رہتے ہیں لیکن بعض ماہرِ نفسیات کے کلینک میں پہنچ جاتے ہیں۔
جب میرے مریض مجھ سے نفسیاتی اور جنسی علاج کروانے آتے ہیں تو میں ان پر واضح کر دیتا ہوں کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، ایک نفسیاتی معالج ہوں، ایک تھیریپسٹ ہوں، میرا کام ان کی مدد کرنا ہے اور ان کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنا ہے۔ میں نہ تو مولوی ہوں نہ ریبائی، نہ پادری ہوں نہ پنڈت۔ میرا کام گناہ و ثواب اور نیکی بدی کے جھگڑوں میں الجھنا نہیں۔ میرا کام ان کی خدمت کرنا ہے۔
بہت سے شادی شدہ جوڑے اپنی شادی کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر پاتے اور CONFUSE ہو جاتے ہیں میں انہیں شادی کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مدد کرتا ہوں۔ میں جب ان تمام SEXLESS COUPLES کے بارے میں سوچتا ہوں جن کی میں نے مدد کی تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ
بعض نے جدائی کا فیصلہ کیا اور کسی اور سے شادی کر لی
بعض نے جنسی خواہشات کو کم کر کے شادی کو قائم رکھا
اور بعض نے تھراپی سے دوبارہ شادی، جنس اور محبت کو یکجا کر دیا اور دوبارہ خوشحال زندگی گزارنے لگے۔
بطورِ نفسیاتی معالج تیس سال کے تجربے میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ حقیقت یہ تھی کہ ان عورتوں اور مردوں میں سے، جو جنسی خواہش کھو چکے تھے، نجانے کتنے بچپن اور نوجوانی میں جنسی زیادتی اور استحصال کا شکار ہوئے تھے۔ ان کے SEXUAL ABUSE نے ان کے لیے نفسیاتی اور جنسی مسائل پیدا کر دیے تھے اس لیے وہ شادی کے بعد بھی جنس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے تھے۔ ایسے مرد اور عورتیں PTSD۔ ۔ ۔ POST TRAUMATIC STRESS DISORDER کا شکار تھے۔ ایسے مریضوں میں سے بعض کے لیے شرم اور بعض کے لیے احساسِ گناہ ایک بڑا نفسیاتی مسئلہ بن گیا تھا۔ وہ جب اپنے شریکِ حیات کے ساتھ سوتے تھے تو ان کے ماضی کے تجربات ڈراؤنے خواب بن کر کر انہیں پریشان کرتے تھے۔
SEXUAL ABUSE ہر انسان کے لیے ایک تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے لیکن وہ اس وقت اور بھی تکلیف دہ ہو جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کے ہاتھوں ہو جس پر بچے نے اعتماد کیا ہو۔ بعض دفعہ یہ استحصال خالو، پھوپھا، سوتیلے باپ یا باپ کے قریبی دوست کے ہاتھوں ہوتا ہے۔
مغرب میں جنسی استحصال پر کھل کر بات ہو رہی ہے لیکن مشرق میں اب بھی بہت سے لوگ انکار کا شکار ہیں۔ مجھے اس انکار کا احساس اس وقت ہوا جب ایک کنیڈین جج نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور درخواست کی کہ میں ایک پاکستانی خاندان کا نفسیانی معائنہ کروں جس میں ایک ماں نے پولیس سے شکایت کی تھی کہ اس کا شوہر اپنی بیٹیوں سے جنسی زیادتی کرتا ہے۔ جج نے مجھے بتایا کہ مجھ سے بات کرنے سے پہلے اس نے ایک پاکستانی لیڈی ڈاکٹر سے درخواست کی تھی کہ وہ اس خاندان کا نفسیاتی معائنہ کرے تو اس لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا ”پاکستانی خاندانوں میں بچیوں کا جنسی استحصال نہیں ہوتا“ ۔ کینیڈین جج اس پاکستانی ڈاکٹر سے بہت مایوس ہوا تھا۔
PTSD کے مریضوں کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگر انہیں مناسب نفسیاتی علاج مل جائے تو ایسے لوگ تھراپی سے بہتر ہو جاتے ہیں اور صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے مردوں اور عورتوں کی اپنے کلینک میں مدد کی ہے اور اب وہ ایک خوشحال ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرا ایک مریض جو ازدواجی اور جنسی مسائل کا شکار تھا۔ جب مجھے پتہ چلا کہ اس کا بچپن میں اپنے خالو سے جنسی استحصال ہوا تھا تو میں نے اس خالو کی موت پر مشورہ دیا کہ وہ اس خالو کے بارے میں ایک خط لکھے۔ اس خط نے اس کی تھراپی اور صحتیابی میں بہت مدد کی۔ اس خط کا ترجمہ حاضر ہے
”اپنے خالو کے نام
اب تم مر گئے ہو تو مجھے کچھ سکون ملا ہے۔ اگر جہنم موجود ہے تو تمہیں وہاں ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میں تمہاری زندگی میں تمہیں یہ خط بھیجتا۔
میں جب بچہ تھا تو تم سے خوفزدہ رہتا تھا۔ میں تم سے دور رہنا چاہتا تھا لیکن جب میری ماں اپنی بہن سے ملنے جاتی تھی تو مجھے اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔ میری خالہ تمہاری بیوی تھی لیکن تم اس سے کنیزوں جیسا سلوک کرتے تھے۔ تم جابر تھے ظالم تھے۔ ہر وقت اپنی بیوی اور بیٹیوں پر حکم چلاتے تھے۔ ان کو ذلیل کرتے تھے۔ ان کی توہین کرتے تھے۔ تمہاری بیٹیاں بھی تم سے نفرت کرتی تھیں اور نوجوانی میں گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
میرے بچپن میں تم نے کئی بار مجھ سے جنسی زیادتی کی میرا جنسی استحصال کیا۔ تم نے میری شخصیت کو مجروح کیا۔ میری عزتِ نفس کو نقصان پہنچایا۔ میں ساری عمر احساسِ کمتری کا شکار رہا۔ کبھی مجھے شرم آتی اور کبھی میں احساسِ گناہ کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا۔ میں اتنا پریشان رہتا کہ اپنی بیوی سے بھی محبت نہ کر سکتا۔
اب جو میں نے ڈاکٹر سہیل سے تھراپی کروائی ہے تو میں صحتمند ہو رہا ہوں اور زندگی میں پہلی بار محبت کرنے کے قابل ہو رہا ہوں۔ تھراپی سے مجھے احساس ہوا ہے کہ جب میرا جنسی استحصال ہو رہا تھا اس وقت میں بچہ تھا میں معصوم تھا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ غلط کام تو تم نے کیا تھا اور تمہیں اس کی کوئی سزا نہیں ملی۔ تمہاری موت سے میری زندگی کا ایک دردناک باب ختم اور تمہارا جہنم کا عذاب شروع ہوا ہے۔
میں تمہارا یہ راز اپنے پاس ہی رکھوں گا تمہاری بیوی اور بیٹیوں کو نہیں بتاؤں گا۔ تمہاری موت کے بعد انہوں نے بھی میری طرح خوشی سے زندہ رہنا شروع کیا ہے۔ “
میں اپنے کالم پڑھنے والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ شوہر ہیں اور آپ کی بیوی آپ میں جنسی دلچسپی نہیں لیتیں تو اس کا لازمی یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کو پسند نہیں کرتیں عین ممکن ہے ان کے ماضی میں کوئی ایسا تجربہ ہوا ہو جس نے انہیں نفسیاتی طور پر متاثر کیا ہو۔ اسی طرح اگر آپ بیوی ہیں اور آپ کے شوہر آپ میں رومانوی دلچسپی نہیں لیتے تو اس کا بھی لازمی یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کو پر کشش نہیں پاتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے ماضی کا کوئی دردناک تجربہ ان کے حال پر سایہ فگن ہو اور انہیں تھراپی کی ضرورت ہو۔
جوں جوں لوگ نفسیاتی اور جنسی مسائل سے آگاہ ہو رہے ہیں وہ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر خود تلاش نہیں کر سکتے تو ماہرِ نفسیات سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا نہ کوئی جرم ہے نہ گناہ۔ خوش رہنا اور محبت کرنا اور پھر محبت میں خوش رہنا ہم سب کا پیدائشی حق ہے۔

بشکریہ  ہم سب