فائل فوٹو
سعودی عرب کے سینیئر
مذہبی دانشوروں کی کونسل کے ایک رکن نے کہا ہے کہ سعودی خواتین کو عبایا پہننے کی
ضرورت نہیں ہے۔
کونسل کے رکن شیخ
عبداللہ المطلق نے ریڈیو پروگرام میں کہا کہ مسلمان خواتین کو حیادار لباس پہننا
چاہیے لیکن اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ عبایا ہی زیب تن کریں۔
یہ بیان سعودی عرب کے
معاشرے کو ایک معتدل راہ پر گامزن کرنے کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔
خبررساں ادارے روئیڑز
کےمطابق شیخ مطلق نے کہا کہ "اسلامی دنیا میں 90 فیصد سے زائد خواتین عبایا
نہیں پہنتی ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی لوگوں کو عبایا پہننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔"
اگرچہ یہ بیان قانون
میں کسی ترمیم کا عندیہ نہیں ہے لیکن کسی بھی اعلیٰ مذہبی شخصیت کی طرف سے پہلی
بار کوئی ایسا بیان دیا گیا ہے۔ نوجوان شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے
بعد سعودی عرب میں جدت پسند رجحانات اختیار کرنے کی طرف پیش رفت نظر آئی ہے۔
حالیہ سالوں میں سعودی
خواتین نے سیاہ عبایا کی جگہ مختلف رنگوں کی عبایا پہننے شروع کر دیئے تھے جن میں
ہلکے نیلے اور گلابی رنگ کے عبایے بھی شامل ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں خواتین میں
لمبے اسکرٹ یا جینز پر کھلے عبایے پہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے
یہ رجحان سعودی معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
سعودی عرب میں 2016ء
میں ایک خاتون کو ریاض کی ایک بڑی سڑک پر عبایا اتارنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذہبی پولیس نے ایک شکایت پر اسے گرفتار کر لیا تھا۔
حال ہی میں سعودی عرب
میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے پیش رفت دیکھی جارہی ہے جں میں خواتین کو ڈرائیونگ
کی اجازت دینے کا فیصلہ اور خواتین کو اسٹیڈیم میں جا کر کھیلوں کے مقابلے دیکھنے
کی اجازت دینا شامل ہے۔
تاہم اب بھی سعودی
خواتین کو کئی ایک معاملات میں اپنے گھر کے مردوں کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے جن
میں پاسپورٹ کا حصول، بیرون ملک جانا اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
بشکریہ اردوVOA