محمد حنیف کا کالم: خادم رضوی کی زبان سے عاصمہ جہانگیر کا نام سن کر میں بچپن کی ساری تربیت بھول گیا!

خادم رضوی اور عاصمہ جہانگیر
یا اللہ! یہ بیچارہ صرف ایک بد زبان مولوی تھا۔ میں اسے معاف کرتی ہوں تو بھی معاف کر
بچپن سے دو چیزیں گھٹی میں ڈال دی گئی تھیں۔ جانوروں سے پیار اور علمائے کرام کا احترام۔ جانور اس لیے کہ اللہ کی بے زبان مخلوق ہیں۔ آج بھی کسی بچے کو کتے کو پتھر مارتے دیکھتا ہوں یا کسی گدھے پر زیادہ بوجھ لدا دیکھتا ہوں تو دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں۔
بچپن میں مولوی کا احترام یہ کہہ کر سکھایا گیا تھا کہ جب دنیا میں آتے ہیں تو کان میں پہلی اذان وہی دیتا ہے اور جب اس دنیا سے جاتے ہیں تو آخری نماز بھی وہی پڑھاتا ہے۔
یہ عالمِ دین، یہ مفتی اور یہ امیرِ شریعت سب ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی بنے ہیں۔
پہلے مولوی بس مولوی ہوتے تھے تو مولوی کسی فرقے کا بھی ہو، پگڑی ہری پہنے یا کالی، دھیمے لہجے میں بولتا ہو یا شیر کی طرح دھاڑتا ہو، چاہے جُگتیں لگاتا ہو یا جہنم کی آگ سے ڈراتا ہو، جہادی ہو یا حلوہ خور یا جہاد کے نام پر حلوہ خوری کرتا ہو، سب کی ہمیشہ سے دل سے عزت کی ہے۔
کئی طویل سہ پہریں مولانا طارق جمیل کی کرکٹروں کے ساتھ تصویریں دیکھتے اور جنت کی حوروں کے میک اپ کے بارے میں اُن کا بیان سنتے گزاری ہیں۔ جب بھی اللہ جمعہ پڑھنے کی توفیق دیتا ہے تو خطبہ ضرور سنتا ہوں۔
احتجاج
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی کی جماعت نے آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف احتجاج کیا تھا
جب سے مولانا خادم رضوی کا ظہور ہوا تو ان کا دیوانہ ہو گیا۔ پھر وہ تھوڑا سا آپے سے باہر ہوئے اور انھیں منظر سے غائب کر دیا گیا تو گھر والوں سے چھپ کر یوٹیوب پر ان کی پرانی تقریریں سن لیتا ہوں۔ چھپ کر اس لیے کہ بچے یہ نہ سمجھیں کہ باپ آخری عمر میں چریا ہو گیا ہے۔
مجھے بیان سے زیادہ خادم رضوی کی زبان میں دلچسپی ہوتی تھی، اپنے اپنے لگتے تھے۔ ان پنجابی بھائیوں کی طرح جو اپنے پیاروں کو گالی دیے بغیر بات نہیں کر سکتے۔ حالانکہ خادم رضوی صاحب کی دو چار گالیاں بہت مشہور ہیں لیکن ’پین دی سری' ان سے غلط منسوب کی جاتی ہے۔ مجھے ان کے انداز میں پنجابی کے پرانے اداکار مظہر شاہ کی کلاسیکی بڑھکوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ ساتھ ساتھ علاموں والی فارسی، عربی کا تڑکا بھی لگا دیتے ہیں۔ بقول شخصے وہ آدھے ’مولا جٹ‘ اور آدھے ’میراثی‘ ہیں۔
عاصمہ جہانگیر
عاصمہ جہانگیر کا نام ملکی سیاست کے افق پر بہت چھوٹی عمر میں ہی سامنے آیا جب دسمبر 1972 میں ان کے والد ملک غلام جیلانی کو اس وقت کے فوجی آمر یحییٰ خان کی حکومت نے مارشل لا قوانین کے تحت حراست میں لے لیا تھا
میں ایک دن ادب کے ساتھ بیٹھا یو ٹیوب پر ان کا پرانا بیان سن رہا تھا۔ پتہ نہیں کدھر کی گپ کدھر ملا رہے تھے کہ مرحومہ عاصمہ جہانگیر پر چڑھ دورے، کہنے لگے کہ وہ گستاخ ہے کیونکہ اس نے کئی گستاخوں کی جان بچائی ہے۔
اس سے پہلے وہ ایک دفعہ عبدالستار ایدھی کو بھی بھک منگا کہہ چکے تھے۔ میں نے یہ کہہ کر دل کو تسلی دے دی کہ ایدھی صاحب کو بھی کئی لوگ مولانا کہا کرتے تھے، مولانا اس سے خود ہی نمٹ لیں گے لیکن خادم رضوی کی زبان سے عاصمہ جہانگیر کا نام سن کر میں بچپن کی ساری تربیت بھول گیا۔ اپنی ساری زندگی میں عاصمہ جہانگیر کو کبھی ضرورت نہیں پڑی کہ کوئی ان کا دفاع کرے۔
وہ 40 سال تک اسی ملک کے زورآوروں، مذہب فروشوں اور سازشیوں کے لیے اکیلی خود ہی کافی تھیں لیکن مولانا خادم رضوی کے منھ سے ان کا ذکر سن کر میرے دل سے آواز نکلی۔ اوئے خادما، اوئے رضویا، تیری یہ جرات، تیری یہ مجال، نظر نیچے کر اور اپنی زبان کو لگام دے اور دونوں ہاتھوں سے اپنی پگڑی سنبھال کہ یہ گرنے کو مانگتی ہے۔
خادم حسین رضوی
خادم حسین رضوی کو گذشتہ برس کے احتجاجی دھرنے میں سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل رہی تھی
ایک دن اپنے خطاب میں کیا کہا تھا کہ تیری پگڑی میں آٹھ گز کپڑا لگتا ہے، شاید تیرے سر میں جتنا خناس بھرا ہے اسے چھپانے کے لیے اتنے کپڑے کی ضرورت پڑتی ہو گی لیکن جس ملک کی گلیوں میں ادھ ننگے بچے پھرتے ہوں وہاں تجھے اپنی پگڑی کا سائز جتاتے حیا نہیں آئی؟ تو کس منھ سے اپنی پگڑی کا نام بتاتا ہے جس منھ سے حضرت عمر بن خطاب کا بھی نام لیتا ہے جن کا کُرتا دوسروں سے لمبا تھا تو ان کی عوام نے گریبان سے پکڑا اور سوال کیا کہ اتنا زیادہ کپڑا کہاں سے آیا تمہارے پاس۔
اپنے ہاتھ دیکھے ہیں کبھی تو نے۔ اتنے نرم، اتنے ملائم۔ اِن ہاتھوں سے تو نے پستے بادام کھانے کے علاوہ کبھی کوئی کام کیا ہے؟ اور باتیں سنانے چلا ہے ان ہستیوں کی جو پیٹ پر پتھر باندھ کر خندقیں کھودتے تھے۔
جانتا کیا ہے تو عاصمہ جہانگیر کے بارے میں۔ جب تو کسی مدرسے میں بغیر سمجھے فارسی کے اشعار کو رٹا لگاتا تھا وہ اس عمر میں فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف مقدمہ کرتی تھی۔ جس وقت تو کسی مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے محکمۂ اوقاف کے افسروں کی چاپلوسی کرتا تھا وہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی نجی جیلوں سے ہاریوں اور مزدوروں کو آزاد کرواتی تھی۔ اتنا تو تجھے بھی پتہ ہو گا کہ ہمارے حضور کا پہلا مشن اس دنیا میں کیا تھا۔ انسانوں کو انسان کی اور جعلی خداؤں کی غلامی سے آزاد کروانا۔ تو اس ہستی کے نام پر آج ووٹ مانگتا پھرتا ہے اور وہ ساری زندگی ان کے مشن کو پورا کرنے میں لگی رہی۔ تو سچا عاشقِ رسول کون ہوا تو یا عاصمہ جہانگیر؟
تیرے جیسے لوگ تو غلامی کا خاتمہ چاہتے ہی نہیں۔ پھر تمہارے کپڑوں پر کلف کون لگائے گا، تمہاری پگڑی کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ لیکن اوئے خادما، اوئے جعلی عاشقا فکر نہ کر اور یاد رکھ کہ اگر عاصمہ آج زندہ ہوتی تو تیری باتوں سے شدید اختلاف کے باوجود تیرا مقدمہ لڑتی، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ جب تجھے روزِ قیامت اٹھایا جائے گا اور تو عاشقان کے ساتھ نہیں بلکہ جاہلان کی صف میں کھڑا ہو گا تو عاصمہ جہانگیر آئے گی، تیری کرسی کو دھکا دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گی اور کہے گی یا اللہ یہ بیچارہ صرف ایک بد زبان مولوی تھا۔ میں اسے معاف کرتی ہوں تو بھی معاف کر۔