اب اور نہیں‘ کے نام سے ٹوئٹر پر نئی مہم

تحریم عظیم
ہراساں
خوف و خطر سے پاک ماحول سب کو میسر ہونا چاہیے
#AbAurNahin (اب اور نہیں)۔ ٹوئٹر پر ایک نئی مہم کا آغاز ہوا ہے اور جیساکہ نام سے ظاہر ہے اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سدباب کرنا یا ان کے بارے میں معاشرے میں آگہی پیدا کرنا ہے۔
اسی مسئلہ پر بحث میں بہت سے خواتین اور کچھ مرد حضرات بھی اپنے خیالات، تجربات، مشاہدات اور سوچ کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس گروپ خواتین کے مسائل اور حقوق کی وکالت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے جس نے اس مہم کو شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں مسلسل کئی ٹوئٹس کی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ 'ہراساں کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اور اس کو مختلف گروہ مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ ہر روز مختلف جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں جس سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے جس میں اس کی صحت اور خوش و خرم زندگی بھی شامل ہے۔
بہت سی سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین اس مہم کی زور شور سے حمایت کررہی ہیں۔
 ایک ٹوئٹر صارف سیرت خان لکھتی ہیں کہ محفوظ اور غیر متعصبانہ ماحول خواتین کی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے 'آن لائن اور آف لائن سپیس' دونوں میں بہت ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایک حساس ماحول اور جس کا آغاز گھر کے اندر سے ہونا چاہیے انتہائی اہم ہے۔ قانون کا اطلاق ہونا چاہیے اس جانب پہلا قدم خواتین کے خلاف جرائم سے اٹھایا جانا چاہیے۔
ایک اور صارف سدرا کے خیال میں معاشرے میں بہت سے لوگ تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہی نہیں۔
اس سوال پر کہ آخر ہراساں کیا جانا ہوتا کیا ہے ؟ سیرت نے جواب دیا کہ ان کے خیال میں ہر وہ عمل جس سے وہ کوفت کا شکار ہوں، بے چینی یا پریشانی محسوس کریں اور جس پر انھیں انکار کرنا پڑے اور کوئی دوسرا وہی کچھ کرنے پر اصرار کرتا رہے میرے خیال میں ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آتا ہے۔
ڈجیٹل رائٹس گروپ کی طرف سے پوچھے گئِے ایک اور سوال پر ثنا فرخ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر آپ سے کوئی کہے کہ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے اس پر شک نہ کریں، اس کی بات سنیں اور اس کی مدد کرنے پر آمادہ رہیں اگر وہ اپنا دکھ بانٹنا چاہیں اور ان کے نجی معاملات کا احترام کریں۔
ایک اور صارف ثنا نے لکھا ہے کہ ہراساں صرف جنس کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ کوئی لڑکی بھی کسی لڑکی کو ہراساں کر سکتی ہے اور کوئی لڑکا بھی کسی لڑکے کے ہاتھوں ہراساں ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھار لوگ کسی دوسرے کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں اس پر الزام لگا کر یا اسے ہراساں کر کے۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔
 تحریم عظیم اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا مردوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ ان کا کونسا فعل اور کونسا عمل کسی دوسرے کو ہراساں کر سکتا ہے۔ اور کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہراساں کرنے والوں کو روکنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔