شادی ہال میں ایک لڑکی

زنیرہ ثاقب

اسلام آباد کے سب سے پوش ہال میں ہونے والی شادی کا کھانا کھلا تو کچھ انتظار کے بعد میں بھی پلیٹ کر کھانے کی میز کی طرف بڑھی۔ مجھ سے آگے لائن میں ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی پلیٹ لے کر کھڑی تھی۔ چال ڈھال اور حلیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ کسی گھرانے کے ساتھ آنے والی ملازمہ ہے۔ آھستہ آھستہ آگے بڑھتے یہ لڑکی ہر ڈش سے تھوڑا تھوڑا کھانا ڈالتی جا رہی تھی۔ میں بھی صبر سے پیچھے آھستہ آھستہ آگے بڑھ رہی تھی

امی جلدی نا بھوک لگی ہے۔ مچھلی کھانی ہے۔ ”میرے بچے نے میرا پلو کھینچا“۔
صبر کرو نہ بیٹا۔ ان کو ہرجگہ ایسے تھوڑی ہی ملتا ہے۔ لینے دو بچی کو آرام سے۔ میں نے بچے کو سمجھایا۔

لڑکی کے کان میں شاید میری آواز چلی گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر پہلے مجھے اور پھر بچے کو دیکھا۔
مجھے کچھ شرمندگی تو ہوئی لیکن اب کوئی ایسی غلط بات بھی میں نے نہیں کی تھی۔

آخر کار ہم مچھلی کی ڈش تک جا پہنچے۔ ملازمہ کی پلیٹ اس وقت تک تقریباً بھر چکی تھی۔ اس نے کچھ جگہ بنائی اور تلی ہوئی مچھلی کے تین چار پیس بھی ڈال لئے۔ پلیٹ لے کر لڑکی پلٹی، کچھ سوچا اور ایک بار پھر مچھلی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میرا اس وقت تک صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا ”بیٹا باقی بعد میں لے لینا۔ پہلے پلیٹ والا تو کھا لو“ میں نے بے صبری سے جھنجلاہٹ میں کہا۔ لڑکی نے میری طرف دیکھا۔ چہرے پر گھبراہٹ نمایاں تھی۔ اس نے ایک سیکنڈ سوچا اور پھر پلیٹ لے کر میزوں کی طرف چلی گئی۔

میں نے اپنا اور بچے کا کھانا ڈالا اور اپنی میز پر جا بیٹھی۔ ساتھ والی میز پر نظر پڑی تو وہی لڑکی کھانے کی پلیٹ ایک خاتون کے سامنے رکھ رہی تھی۔ خاتون وضح قطع کسی امیر گھرانے کی نظر آ رہیں تھیں۔ انھوں نے گود میں موجود دو تین سال کے بچے کو ملازمہ کو پکڑایا اور کھانے میں مشغول ہو گیں۔ لڑکی بچے کو گود میں لئے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ بچے کو بہلانے کے ساتھ ساتھ لڑکی گردن اٹھا کر بار بار کھانے کی میز کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظروں کا پیچھا کیا تو نظر وہیں مچھلی والی ڈش پر ٹکی تھیں

آھستہ آھستہ خاتون نے اپنا کھانا ختم کیا ٹشو سے اپنا منہ صاف کیا، ملازمہ کو سر کی جنبش سے اشارہ کیا۔ لڑکی نے تیزی سے بچہ خاتون کو پکڑایا اور کھانے کی میز کی طرف لپکی اور خالی پلیٹ لے کر مچھلی کی ڈش کے پاس پہنچ گئی۔ چہرے پر امید لئے اس نے ڈش کے اندر نگاہ ڈالی۔

ہاتھ کچھ کپکپایا
چہرے پر مایوسی سی کھنڈ گئی

اختتام نمبر 1

اس نے خالی پلیٹ میز پر رکھی اور کندھے جھکائے اپنی کرسی پر واپس چلی گئی۔ اب اس کے چہرے پر صاف غصہ تھا۔ پہلے کی مسکراہٹ کہیں مفقود ہو چکی تھی۔ خاتون نے اس کو واپس بیٹھے دیکھا تو کچھ پوچھا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ خاتون نے گود میں موجود بچہ پکڑایا اور دونوں دروازے کی طرف چل دیں۔ خاتون آگے تھیں اور لڑکی پیچھے چل رہی تھی۔ چہرے پر غصہ اور جھنجلاہٹ اب بھی نمایاں تھی۔ پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا، کسی کو اپنی طرف متوجہ نا پا کراس نے گود موجود بچے کو زور سے چونٹی کاٹی، بچہ تڑپ کر بلکنے لگا۔ ماں رونے کی آواز سن کر پیچھے پلٹی، بچے کو کچھ پوچھا اور کھینچ کر ایک تھپڑ ملازمہ کو رسید کر دیا۔ بچہ گود سے کھینچا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

اختتام نمبر 2


یک دم کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ گھبرا کر لڑکی تیزی سے پیھے مڑی
میں نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور مچھلی سے بھری پلیٹ اس کی طرف بڑھا دی۔

اس کے چہرے کے سارے رنگ واپس آ گئے۔ اس نے تشکر بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور رغبت سے مچھلی کھانے لگی۔
کھانا ختم کر کے واپس خاتون کی طرف گئی۔ بچے کو ان کی گود سے لیا اور مسکراتے ہوے اسے بہلانے لگی۔