ادب کےنوبل انعام یافتگان اور چند مباحث

عدیل عباس عادل 
جمعرات دس اکتوبر کو سویڈش اکیڈمی نےزبان و ادب کےشعبہ میں اعلیٰ کارکردگی کےاعتراف میں اِس سال ایک نہیں دو نوبل انعامات کا اعلان کیا۔ نوبل فائونڈیشن کی جانب سے ہر سال ایک نوبل ایواراڈ کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ سال سویڈش اکیڈمی میں سامنے آنے والے جنسی سکینڈل کےباعث اِس انعام کا اعلان نہ کیا جا سکا لہٰذا اِس سال اکھٹے دو انعامات کا اعلان کرتے ہوئے 2018ء کا نوبل ادب ایوارڈ پولینڈ سےتعلق رکھنےوالی شاعرہ و مصنفہ اولگا توکارجِک کو دیا گیا جبکہ رواں سال 2019ء کےایوارڈ کےحقدار پیٹر ہانڈکے ٹھہرائے گئے۔ ہانڈکے آسٹریا میں رہنےوالے ڈرامہ نویس، ناول نگار اور فلم میکر ہیں جن کا شمار یورپ کے سینئرادیبوں میں ہوتا ہے۔
1901ء تاحال اب تک 110 ادیب اِس انعام کےحقدار ٹھہر چکے ہیں جن میں اولگا توکارجک سمیت پندرہ خواتین کےنام بھی شامل ہیں۔ ہر سال ہی اِس انتخاب کی دوڑ میں چند نام شارٹ لسٹ کیے جاتے ہیں جن میں سےایک کو نوبل ادب ایوراڈ کا حق دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ادیبوں کے فنی سفر اور اپنی پسند ناپسند کو سامنے رکھتے ہوئےعوام کےجانب سے انتخاب پر کئی سوال اُٹھائے جاتے ہیں۔ 2016ء کا نوبل ادب انعام امریکن گیت نگار باب ڈیلن کو دیا گیا تو ادبی حلقوں میں اِس بات پر بحث ہونے لگی کہ ادب کا ایوارڈ خالصتاَ شعرو ادب میں کار ہائے نمایاں سر انجام دینےوالوں کی بجائےایسے گیت نگار کو کیوں دیا گیا جو شاعری کی بجائے ایک موسیقار کی حیثیت سےجانا جاتا ہے۔ 2017ء میں جب یہ انعام برطانیہ میں مقیم جاپانی نژاد ناول نگار کازواؤ ایشگرو کو دیا گیا تو بیشتر لوگ اِس انعام کا اصل حقدارایشگروکے ہم وطن ادیب ہاروکی موراکامی کو گردان رہے تھے۔ گزشتہ سال یہ ایوارڈ ایک سکینڈل کی نذر ہو گیا۔ تاہم رواں سال میں دو ادیبوں کےنام کا اعلان کرتے ہوئے پچھلے سال کی کمی کو پورا کیا گیا۔
2018ء کےانعام کی حقداراولگا توکارجک اور 2019ء کے لیے منتخب نام پیٹر ہانڈکے کےناموں پر ہونےوالےمباحث کو دیکھیں تو سب سےبڑا اعتراض تو یہ آ رہا ہےکہ کیا اعلیٰ ادب صرف یورپ میں ہی تخلیق ہو رہا ہے؟ جاپانی فکشن نگار ہاروکی موراکامی، کینیڈا سےتعلق رکھنےوالی ادیبہ مارگریٹ ایت وڈ، افریقہ کےلکھاری گوگی واتھینگو، میلان کنڈیرا اور اسمعیل کادارے وغیرہ پر سویڈیش اکیڈمی کی نظر کیوں نہیں ٹھہرتی؟ اِس کےعلاوہ یورپ میں رہنے والے ایسےادیب جو غیر یورپی زبانوں مثلاَ ہندی اور عربی وغیرہ میں لکھ رہے ہیں جیسا پیرس میں ادونیس کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یہ سب ایسےادیب ہیں جو نہ صرف دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو رہے ہیں بلکہ معیاری ادب تخلیق کرنےکےباعث دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسےنام جو معاصر ادبی منظر نامے پر اُس طرح غالب نظر نہیں آتےجب نوبل انعام ہی لے اُڑیں تو حیرت زدہ ہونا کوئی اچنبھےکی بات نہیں۔
پولستانی ادیبہ اولگا توکارجک کےنام کو بعض لوگ اِس بنا پر سراہ بھی رہےہیں کہ ایسا فیصلہ سامنے آنے سے انسانی حقوق کے لیے متحرک اور معاشرتی سطح پر فعال مصنفہ کی حوصلہ افزائی ایک خوش آئندہ عمل ہے۔ نیز ادب کے شعبہ میں خواتین کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی گزشتہ سال میں رونما ہونے والے واقعات جیسےعوامل کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہے۔
اولگا توکارجِک کے فنی سفر کا مختصر جائزہ لیا جائےتو جنوری 1962ء کو سالیکو، پولینڈ میں پیدا ہونےوالی اولگا توکارجِک پولینڈ کی مقبول فکشن نگار، سماجی کارکن اور اہم دانشور ہیں۔ اپنی کہانیوں میں اساطیری لہجے اور منفرد اسلوب کے باعث توکارجِک کو جدید یورپی ادب کا معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نےاپنی فنی سفر کا آغاز ایک ماہر نفسیات کےطور پر کیا، 1989ء میں اُن کی نظموں کا پہلا مجموعہ  city in Mirrorsکےنام سےشائع ہوا۔ Primeval and Other Times  ،The Journey of the Book-People  اور Flights اولگا توکارجِک کےاہم ترین ناول ہیں۔ 2008ء اور 2015ء میں پولینڈ کےسب سے بڑے ادبی ایوارڈ نائک ایوراڈ سے اُن کےفن کا اعتراف ملکی سطح پر کیا گیا۔ 2017ء میں توکارجِک کےناول Drive your  Plough over the Bones of the Dead پر بننےوالی فلم Spoorکو برکن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اعلیٰ انعام سےنوازا گیا۔ 2018ءمیں ناول فلائیٹس پر اُن کو بوکر انٹر نیشنل ایوارڈ دیا گیا جو کہ پولینڈ سےتعلق رکھنےوالےکسی بھی ادیب کے لیے پہلا بین الاقوامی ادبی ایوراڈ تھا۔ اولگا توکارجِک شاعری ، ناول اور افسانہ نگاری کےساتھ ساتھ سکرین پلے پر مشتمل تقریباَ دو درجن کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ اِن تمام ادبی خدمات کےاعتراف میں سویڈش اکیڈمی کےمستقل سیکریٹری میٹس مالم نےیہ کہتے ہوئے 2018ء کےنوبل ادب انعام سےنوازا کہ “اولگا توکارجِک کی تحریریں سرحدوں کی حدود سے بلند ہو کر وسیع سطح پر علم پھیلائے ہوئے ہیں”۔
اولگا توکارجِک کی نسبت 2019ء کا نوبل ادب انعام پانے والے آسٹریا کےمعروف ادیب پیٹر ہانڈکےکا نام خاصی متنازعہ صورت ِ حال بنائے ہوئے ہے۔ اِس تنازعہ اور سویڈش اکیڈمی کےفیصلے سے پیدا ہونے والےمباحث کو پیٹر ہانڈکے کی سماجی اور سیاسی فکر کو سامنے رکھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ پیٹر ہانڈکے چھ دسمبر 1942ء کو آسٹریا میں پیدا ہوئے۔ حقیقی والد فوجی تھے جن سے پہلی ملاقات جوانی کی عمر میں ہوئی۔ ہانڈکےکی پیدائش سے پہلے ہی والدہ نےاُس کےحقیقی باپ کا گھر چھوڑ دیا۔ دوسری شادی بھی ایک فوجی سے ہی کی۔ جِس کی کثرت شراب نوشی کے باعث پیٹر ہانڈکےاور اُس کی والدہ کو خاصی اذیت سےگزرنا پڑتا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی سکول اور کالج کےرسالوں میں چند تحریرں شائع ہوئی۔
یونیورسٹی آف گراز سے قانون میں ڈگری حاصل کی۔ 1960ء میں پہلا ڈرامہ  offending the audienceلکھا۔ بعد ازاں The Goalie’s Anxiety at the Penaltyکےنام سےایک ناول سامنےآیا۔ 1971ءمیں اپنی والدہ کی خود کشی کی اذیت کو A Sorrow Beyond Dreams نامی ناول میں قلم بند کیا۔ کئی ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ فلمز کے لیےسکرین پلے لکھے اور متعدد فلمیں ڈائریکٹ بھی کی۔ 1973ء میں جارج بُکنر پرائز، 1978ء میں گولڈن پام ایوارڈ، 2014ء کےانٹر نیشنل ابسن ایوارڈ کےعلاوہ کئی ملکی و بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کرنے والے پیٹر ہانڈکے متعدد کتابوں کےمصنف ہیں اور یورپ کےسینئر ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔ یورپین لٹریری ایوارڈ  Petraca Preis کےجیوری ممبر ہونے کےساتھ ساتھ سربین اکیڈمی آف سائنس اینڈ آرٹ اور آرتھوڈکس چرچ کےممبر بھی ہیں۔
ہانڈکے کے سینئر ادیب ہونے کے باوجود اُن کےنام پر دنیا بھر سےاعتراض سامنےآنےکی وجہ اُن کے سربیا نواز متنازع نظریات ہیں جو عالمی دنیا کےساتھ ساتھ خود یورپ میں بھی اُن کا تشخص کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔ جنگِ یوگوسلاو میں مظلوم کی داد رسی کرنے کی بجائےظالم کی حمایت کرنے پر اُن کی پوزیشن خاصی متنازع تصور کی جانے لگی۔ سربیا کےسابق صدر سلوبوڈان ملاسیوچ کے جنازے پر بیس ہزار کےسوگوار مجمعے میں کھڑے ہو کر ہانڈکے نے جو تقریر کی اُس کو ترقی پسند دانشوروں اور مغربی عوام کےجانب سےتنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ A Journey of the Rivers: Justice for Serbia کےعنوان سے شائع ہونے والے پیٹر ہانڈکے کے ایک مضمون میں جنگ کی حقیقی وجوہات بیان نہ کرنے پر مغربی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ مظلوم کے استحصال کی حمایت کرنے پر بائیں بازو کےادیبوں نے انھیں یکسر مسترد کیا۔ لیکن اِن تمام اعتراضات کی پروا کیے بغیر سویڈش اکیڈمی نےادب کا نوبل پرائز پیٹر ہانڈکے کی جھولی میں ڈال دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایوارڈ سے کسی بڑے تخلیق کار کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں آتا۔ کسی بھی فن پارے کی عظمت کو ایوارڈ ملنے سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ ٹالسٹائی اور چیخوف جیسےادیب بنا نوبل کے اپنی عظمت میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔
ایک قاری کے طور پر معاصر ادبی منظر نامے پر مقبول ترین ادیبوں کی فہرست بنائی جائےتواولگا توکارجِک اور پیٹر ہانڈکے کے نام شاید پہلے دس ناموں میں شمار نہ کیےجا سکیں۔ نوبل ادب ایوارڈ سے ملنے والی وقتی ہاؤ ہو سے مذکورہ لکھاری قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر پائیں گے یا باب ڈیلن کی طرح چند روز اخباروں کی سرخیوں میں نمایاں رہ کر ماضی کا قصہ ہو جائیں گے اِس کا فیصلہ آئندہ چند دِنوں میں ہی ہو جائے گا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں