مکڈونلڈز: آئس لینڈ میں 10 سال پرانا برگر آج بھی ’کھانے کے قابل‘


سنہ 2009 میں جب مکڈونلڈز نے آئس لینڈ میں اپنے تمام ریستوران بند کیے تو ایک شخص نے آخری ہیمبرگر اور فرائز خریدنے کا فیصلہ کیا۔
جورٹور سمارسن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’میں نے سنا تھا کہ مکڈونلڈز کا کھانا کبھی گلتا سڑتا نہیں اور میں جاننا چاہتا تھا کہ ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے۔‘
رواں ہفتے اس کھانے کو خریدے ہوئے 10 سال ہو گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے اسے کل ہی خریدا گیا ہو۔
متجسس افراد جنوبی آئس لینڈ کے ایک ہاسٹل، سنوٹرا ہاؤس میں شیشے کی الماری میں محفوظ برگر اور فرائیز کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ہاسٹل کے مالک سگی سگورڈور نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’وہ ضعیف برگر اب بھی یہیں ہے اور ان کی طبیعت بہتر ہے۔‘
’یقینا یہ مزے دار لگتا ہے لیکن یہ آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آپ کیا کھا رہے ہیں۔ اسے کوئی پھَپھوَندی وغیرہ نہیں لگی، صرف کاغذ کی ریپنگ ہے جو پرانی لگتی ہے۔‘
ہاسٹل کا دعویٰ ہے کہ برگر دیکھنے کے لیے لوگ دنیا بھر سے آتے ہیں۔ اس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں اس برگر کو رکھا گیا وہاں ایک ویب کیم لگا دیا گیا ہے اور ویب سائٹ پر روزانہ چار لاکھ افراد اسے دیکھتے ہیں۔


The meal frequently receives visitors in its home in a glass cabinet in southern Icelandتصویر کے کاپی رائٹAFP / ANGELIKA OSIEWALSKA
Image captionپوری دنیا سے لوگ آئس لینڈ میں مکڈونلڈ کے آخری برگر کو دیکھنے آتے ہیں

مختصر عرصے میں برگر اور فرائز کا سفر

کھانا کتنی جلدی گل سڑ جائے گا، یہ جاننے کے لیے مسٹر سمارسن نے تحقیق کے پہلے مرحلے میں اسے اپنے گیراج میں پلاسٹک کے تھیلے میں رکھا تھا۔
جب تین سال بعد انھوں نے کھانے کو تھوڑا گلتے سڑتے دیکھا تو اسے آئس لینڈ کے نیشنل میوزیم میں بھجوا دیا۔
سنوٹرا ہاؤس کے مطابق میوزیم کے ایک ماہر نے بالآخر فیصلہ کیا کہ ان کے پاس کھانے کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری سامان نہیں ہے لہذا اسے اصل مالک کو واپس کر دیا گیا۔
سمارسن کہتے ہیں ’میرے خیال میں یہ غلط فیصلہ تھا کیونکہ یہ ہیمبرگر اپنے آپ کو خود محفوظ رکھتا ہے۔‘
ریکیاوک کے ہاسٹل میں اس پر جادو پھونکنے کے بعد کھانا وہاں پہنچا جس جگہ اسے ابھی رکھا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر نے وقت کی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والی دوسری خوراکوں پر بحث چھیڑ دی۔
ایک ٹوئٹر صارف نے تبصرہ کیا ’ہمارے ہائی اسکول میں ہیلتھ ٹیچر نے یہ کام کیا تھا، اور کھانے کو صرف ایک شیلف پر چھوڑ دیا تھا۔‘
’انھوں نے اس چیز کی نشاندہی کی تھی کہ برسوں گزرنے کے باوجود بھی کھانا سڑنا نہیں شروع کرتا کیوں کہ بظاہر اس میں مائکروبس کے لیے بی مناسب غذائی اجزا موجود نہیں تھے۔‘
سمارسن، مکڈونلڈز کے کھانے کے ساتھ یہ تجربے کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔


The burger and fries are currently kept in a hostel in southern Icelandتصویر کے کاپی رائٹSNOTRA HOSTEL
Image captionبرگر اور فرائیز کو ایک ہاسٹل، سوتنرا ہاؤس میں شیشے کی الماری میں رکھا گیا ہے

کیرن ہنراہن نے 1996 میں ایک ہیمبرگر خریدا اور 14 سال بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اسے خریدنے والے دن سے مختلف حالت میں نہیں دیکھا۔
سنہ 2010 میں نیویارک کی فوٹوگرافر سیلی ڈیوس نے ایک ہیپی میل خریدا اور آنے والے چھ مہینوں تک روزانہ اس کی تصویر لیتی رہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ خراب نہیں ہوا، اس سے بدبو نہیں آرہی، کیڑے نہیں پڑ ے یا یہ خراب ہونے کی کوئی اور علامت نہیں ظاہر کر رہا۔
مکڈونلڈز نے 2013 میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’بہت سے دوسرے کھانوں کی طرح ہمارے برگر بھی صحیح ماحول میں گل سڑ سکتے ہیں‘ لیکن ماحول میں نمی نہ ہو تو ’ان کے گلنے سڑنے یا ان میں بیکٹیریا لگنے کا امکان کم ہوتا ہے۔‘
اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے یونیورسٹی آف آئس لینڈ کے فوڈ سائنس کے سینئر لیکچرر، جورن ایڈالبجورنسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ نمی کے بغیر، ’کھانا آسانی سے خشک ہو جائے گا۔‘
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔