جنسی ہراسانی کے الزامات کی شفاف تحقیقات کیسے ممکن بنائی جائیں؟

پاکستان میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی خبریں آئے دن پڑھنے کو ملتی ہیں بلکہ اب تو چند خبریں مردوں کو ہراساں کرنے کی بھی سامنے آ چکی ہیں۔
خواہ وہ دفتر ہو، بازار یا تعلیمی ادارے ہراساں کرنے کے الزامات کی آوازیں ہر جانب سے سنائی دیتی ہیں۔
حال ہی میں گلوکارہ رابی پیرزادہ کی نازیبا تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور ان کا نام ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔
صرف یہی نہیں بلکہ بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں سے ویڈیوز بنا کر طالبات کو بلیک میل کرنے اور لاہور کے ایم اے او کالج کے لیکچرار پر لگے الزامات کے بعد خود کشی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایم اے او کالج میں انگریزی کے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات میں الزام درست ثابت نہ ہونے کے باوجود کالج انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر نو اکتوبر کو خود کشی کر لی تھی۔
غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے حال ہی میں آن لائن پلیٹ فارمز پر صحافی خواتین کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 95 فیصد صحافی خواتین کا کہنا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر ہونے والی ہراسانی کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے جبکہ 77 فیصد کے مطابق وہ خود کو سینسر کر لیتی ہیں۔
جہاں ہراساں کرنے کے واقعات میں حقیقت بھی ہے وہی ان تمام الزامات کی تحقیق اور ان کو ثابت کرنے پر ہمیشہ شکوک و شبہات رہتے ہیں۔
انھی واقعات کے تناظر میں بی بی سی کی جانب سے یہ تحقیق کی گئی کہ ہراسانی کے الزامات کی تحقیق کرنے والی کمیٹیاں کس میعار پر تشکیل دی جاتی ہیں اور کس قانون اور ضابطے کے تحت ایسی کمیٹیاں کام کرتی ہیں۔
افضل محمود
افضل محمود
ہراسانی کے قانون پر گہری نظر رکھنے والی سماجی کارکن ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق ’ہراسمنٹ کے قانون کو بنانے کے لیے ہم نے بہت زیادہ تحقیق کی تھی اور اس کام میں ہمیں دس سال کا عرصہ لگا۔‘
ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ اس قانون کو بنانے کے لیے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین سے تحقیق کی گئی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ خواتین کو اپنے اداروں میں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے جس کے بعد ہراسانی کے خلاف پالیسی تیار کی گئی جو بعدازاں قانون کی شکل میں تبدیل ہوئی۔
ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق ’یہ محسوس کیا گیا کہ اس قانون میں کچھ مسائل ہیں کیونکہ یہ ان شہریوں پر لاگو نہیں ہو پا رہا تھا جو کسی باقاعدہ ادارے کے لیے کام نہیں کرتے جیسا کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین یا پھر بس سٹاپ پر ہراساںی کا شکار خواتین۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان ہی مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس قانون میں ترامیم کی گئیں۔
فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ یہ قانون ہم نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہی بنایا تھا اور آخری وقت تک اس حوالے سے بحث جاری رہی تاہم اس وقت ہمیں یہی کہا گیا تھا کہ یہ قانون صرف عورتوں کے لیے بنایا جائے گا۔

ہراسمنٹ کمیٹی بنانے کا اختیار

ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ عموماً اداروں میں انتظامیہ کے نگران ہراسانی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں یہ اختیار وائس چانسلر یا پرنسپل کے پاس ہوتا ہے۔
بی بی سی نے تصدیق کرنے کے لیے مختلف اداروں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اداروں کے سربراہان یہ کمیٹیاں تشکیل دیتے ہیں۔
ایم اے او کالج کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ’اگر انتظامیہ کا کوئی سینیئر اہلکار یہ کہے کہ اس معاملے پر حکومت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا تو ان کو اپنے عہدے کا خیال رکھتے ہوئے اس قانون کو خود بھی پڑھنا چاہیے جو کہ بہت آسان زبان میں لکھا گیا ہے۔‘
ہراسانی
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو آپ کو تحقیقات کرنے کے بنیادی قواعد ضرور پتہ ہونے چاہیں۔
’اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمیں انکوائری کرنی نہیں آتی یا ہمیں قانون کا علم نہیں تو وہ اس عہدے کے لیے اہل نہیں ہے۔‘
یاد رہے کہ ایم اے او کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انھیں علم نہیں تھا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد افضل کو تحریری لیٹر جاری کرنا تھا۔‘
جبکہ ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ جب بھی کسی ایسے الزام کی کوئی تحقیقات کی جاتی ہیں تو اس کے مکمل ہونے کے بعد شکایت کنندہ اور جس پر الزام لگا ہو دونوں فریقین کو تحریری طور پر انکوائری کے نتیجے سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہم نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ اس معاملے پر اداروں میں سیاست کی جاتی ہے۔‘

کیا ہراسمنٹ کمیٹی کے ممبران کو کوئی تربیت دی جاتی ہے؟

ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران کو دو سے تین دن کی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ سینیئر مینجمنٹ کو ایک دن کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
یاد ریے کہ ایم او کالج واقعے کی ہراسانی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ہم عموماً انکوائری اپنی عقل کے مطابق کرتے اور فیصلہ دیتے ہیں۔‘
جب بی بی سی نے دیگر یونیورسٹیوں سے منسلک افراد سے اس بارے میں گفتگو کی تو زیادہ تر افراد نے یہی جواب دیا کہ انھیں ٹریننگ نہیں دی جاتی تاہم اکثر بڑی نجی کمپنیوں میں ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ہراسانی
ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق وہ گذشتہ آٹھ برسوں سے ان معاملات سے متعلق تربیت سازی کروا رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کمیٹی کے افراد کے چناؤ میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ شخص اعتبار والا ہو اور لوگوں کے ساتھ با آسانی بات چیت کر سکتا ہو۔
تاہم یہ سینیئر مینیجمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے لوگوں کو بتائیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے قانون کے بارے میں لکھ ہر ادارے میں لگائیں تاکہ لوگ اس کے بارے میں جان سکیں۔

ہراسانی کمیٹی کی کارروائی سے غیر مطمئن ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر فوزیہ نے بی بی سی کو بتایا ’اگر کوئی شخص کمیٹی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہے تو وہ اپنی شکایت لے کر محتسب کے پاس جا سکتا ہے۔ اگر کمیٹی نے ایسا فیصلہ دیا ہے جو آپ کے خیال میں انصاف پر مبنی نہیں ہے تو آپ محتسب کے پاس اپیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں شکایت کرنے والا یا جس پر الزام لگایا گیا ہے ان دونوں میں سے کوئی بھی شخص محتسب کے پاس جا کر سینیئر مینجمنٹ کی شکایت کر سکتا ہے اور اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ محتسب بھی آپ کی شکایت کو سنجیدگی سے نہیں سن رہا تو آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے معاملات میں آپ کو پولیس کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ آپ عدالت میں اپنی درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔‘
تاہم جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں ادارہ الزام لگانے والے کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کی سزا کا تعین محتسب کا دائرہ اختیار ہے۔