میری بیوی پھر سے جہنمی کیسے ٹھہری؟

ہوا یہ کہ میں نے لز سے شادی کرلی۔ نام اس کا ایلزبتھ تھا مگر وہ لز کے نام سے جانی اور پکاری جاتی تھی، خوبصورت تو وہ تھی ہی مگر خوبصورتی سے زیادہ اس کا انداز تھا، رکھ رکھاؤ کا طریقہ، بات کرنے کا سلیقہ، اور دنیا کے بارے میں اس کا رویہ بھی میرے جیسا تھا۔ جس نے مجھے اس کا دیوانہ بنادیا تھا۔ اس سے ملاقات آفس میں ہوئی تھی۔ ہم دونوں ہی کمپیوٹر ڈویژن میں کام کرتے تھے اورکام کے ہی سلسلے میں تقریباً روزانہ ہی رابطے میں رہتے تھے۔
سچی بات یہ ہے کہ پہلی ہی ملاقات سے مجھے اس میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور میں نے اسے بھی زندگی میں ملنے والی دوسری لڑکیوں کی طرح آسان سمجھا۔ میں نے سوچا اس نئے شہر میں بھی اوپر والے نے وقت گزارنے کے انتظامات کردیئے ہیں۔ اس کے ساتھ تو وقت گزارنا بڑا اچھا ہو گا۔ مجھے لڑکیوں کو تلاش کرنے میں کبھی بھی مشکل نہیں ہوئی۔ میں ذہین ہوں، پاکستانی گندمی رنگ کے ساتھ مجھ میں کشش بھی ہے۔ وجیہہ ہوں، اپنے کام میں اچھا ہوں لہٰذا روپوں پیسوں کی کمی بھی نہیں ہے۔ لڑکیاں خودبخود میری طرف متوجہ ہوجاتی ہیں۔ کچھ عرصہ ساتھ رہتا ہے پھر راستے الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ امریکہ میں اس زندگی کے مزے کچھ اور ہیں اس وقت تک جب حقیقت میں کوئی ایسا مل جائے جس کے ساتھ ساری زندگی رہنے کا پروگرام بن جائے۔
مگر بظاہر آسان سی لز بہت مشکل ثابت ہوئی اور پہلے ہفتے ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ پہلے ملنے والی لڑکیوں سے کافی نہیں بلکہ بالکل مختلف ہے۔ یہ تو ایک طرح سے چیلنج کا سامنا تھا، یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ جو مجھے اچھی لگے اور مجھے ہی منع بھی کردے۔ ایسا میرے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ لفظ ”نہیں“ میری لغت میں نہیں تھا۔ میں نے دوستی بڑھانے کا فیصلہ کرلیا کہ وقت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی بدلے گی۔ جلد ہی پتا چل گیا کہ اس کا تعلق میتھوڈسٹ چرچ سے ہے۔ وہ عیسائی تھی اور کافی مذہبی بھی۔ اس کے کپڑے اس کا رہن سہن اور باتیں ان سب میں کہیں نہ کہیں مذہبی جھلک موجود تھی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ وہ مجھے اچھی لگنے لگی۔ وقت گزارنے کے لیے نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے لیے۔ اس دفعہ میں سنجیدہ ہوگیا اور سوچنے لگا تھا کہ لز سے شادی کرلی جائے۔ آخر تو ایک دن شادی کرنی ہی ہے اور کسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہی ہے۔ لِز مجھے پسند آگئی تھی اور اب دل کے ہاتھوں میں مجبور سا ہوگیا تھا۔ لیکن سوچنا اور شادی کرلینا اتنا آسان نہیں تھا۔ پہلے تو اس کی رضامندی ضروری تھی پھر اپنے ماں باپ کو راضی کرنا بھی ایک مسئلہ تھا۔
میرے والدین کو امریکا آئے ہوئے اٹھارہ سال ہوگئے تھے مگر ان کا بدلا کچھ بھی نہیں تھا سوائے گھر کے پتے کے۔ وہ پہلے نارتھ کراچی میں رہتے تھے اور اب ساؤتھ کیرولینا میں تھے جیسے وہ نارتھ کراچی میں سوچتے تھے ویسے ہی وہ ساؤتھ کیرولیا میں بھی سوچتے تھے فرق یہ تھا کہ نارتھ کراچی میں رات کے کھانے پر کوک کی بوتل نہیں ہوتی تھی ساؤتھ کیرولینا میں کوک کی بوتل ضروری ہوگئی تھی۔ ایک اور فرق یہ تھا کہ میرے والد کی محنتوں سے ہمارے امریکی گھر میں خوشحالی آگئی تھی، امریکہ کی برکتوں سے ہم تینوں بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی تھی اورامریکہ کے ہی مختلف شہروں میں اچھی جگہوں پر کام کررہے تھے مگر اس کے علاوہ زندگی بسر کرنے کے طریقوں میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا سوائے اس کے والد صاحب کا مسجد میں آنا جانا کراچی سے زیادہ تھا۔
وہاں وہ جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھتے تھے اور مولوی سے ان کا واسطہ جمعہ کی وعظ تک ہی تھا مگر یہاں امریکا میں جمعہ کے علاوہ ہفتہ اتوار بھی مسجد کے کاموں اور مسلمانو کے اجتماع میں گزرتا تھا، ساتھ ہی ہماری زندگی کے بہت سارے فیصلوں میں مولویوں کا بہت زیادہ عمل دخل ہوگیا تھا۔ سماجی طور پر وہ مسجد کا ایک حصہ بن گئے تھے۔
میرے دونوں بڑے بھائیوں کی شادی کراچی میں تلاش کے بعد کراچی کی ہی لڑکیوں سے کی گئی تھی۔ میری بڑی بھابھی نے کراچی کے سندھ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کی سند حاصل کی تھی۔ شادی کے بعد انہوں نے امریکا میں کام کرنے کے لیے امریکی امتحان کی تیاری کی مگر جلد ہی ڈاکٹری کا ارادہ چھوڑ کر وہ گھرداری اور بچوں کی پیدائش کے بعد بچوں کی دیکھ بھال میں لگ گئی تھیں۔ دوسری بھابھی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا انہوں نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج سے کمپیوٹر سائنس میں سند حاصل کی اور امریکا آکر ہاؤس وائف بن گئی تھیں۔
میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ ان کے والدین نے ان کی تعلیم پر پیسے خرچ کیے ہوں گے، ذہین ہوں گی تب ہی تو داخلہ بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کالج میں ہوا ہوگا مگر یہاں آکر بالکل ہی بدل کر رہ گئی تھیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، سوچتا تھا کہ دونوں بھائی اسی میں خوش ہیں تو مجھے کیا ہے۔ لیکن میں نے اپنے لیے یقینی طور پر ایسا نہیں سوچا تھا۔
مجھے کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کا کوئی شوق نہیں تھا۔ مجھے امریکی لڑکیاں اچھی لگی تھیں اور میں امریکی طور سے اپنی زندگی گزار رہا تھا۔ لز کو اپنی طرف سنجیدگی سے مائل کرنے میں بہت دیر نہیں لگی۔ باہمی تعلقات جلد ہی محبت میں بدل گئے اور میں بھی اسے اچھا لگنے لگا تھا پھر ایک دن میں نے اسے شادی کی پیشکش کردی جسے اس نے منظور تو کرلیا لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ دونوں خاندانوں کی باہمی منظوری بھی ہونا چاہیے اس نے مجھے بتایا کہ جب بھی وہ اپنے والدین کو بتائے گی انہیں اعتراض نہیں ہوگا۔ اس معاملے میں وہ آزاد تھی۔ شاید وہ تھوڑے حیران ہوں مگر زندگی کے اس فیصلے پر راضی ہوں گے۔
اعتراض تو میرے والد کو تھا جو کسی بھی صورت میں ایک گوری بدکردار، امریکی عیسائی لڑکی سے میری شادی کے لیے تیار نہیں تھے۔ والد صاحب نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگرمجھے شادی کرنی ہے تو ضرور کرلوں جس کے بعد ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ پہلی دفعہ امریکا میں مجھے ہنسی بھی آئی تھی اور رونا بھی۔ جہاں تک پاکستانی خاندانوں کے کردار اور زندگی کے اصولوں کاتعلق تھا تو سچی بات تو یہ تھی کہ بدکردار تو میں نہیں تھا میں نے کسی لڑکی کو دھوکہ نہیں دیا تھا مگرکئی لڑکیاں میری گرل فرینڈ رہی تھیں جس کا علم میرے گھر والوں کو نہیں تھا اور اگرتھا بھی توا یک مرد ہونے کے حوالے سے انہیں اس پر کوئی شدید اعتراض بھی نہیں تھا۔
امریکہ میں پاکستانی خاندان اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے ہیں یہ ایک عجیب بات تھی جو مجھے بہت کھلتی تھی۔ لز ایک میتھوڈسٹ عیسائی تھی جو پابندی سے چرچ جاتی جس کے اخلاقی اصولوں میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں تھا۔ میں حالات کی ستم ظریفی پر ہنس دیا اور اپنی بے بسی پر مجھے رونا بھی آیا تھا۔ یہ ساری باتیں میں نے لز کو بھی بتادی تھیں اور ہم دونوں گھنٹوں اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے باتیں کرتے رہتے تھے اس کی سنجیدہ باتوں اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے وہ مجھے اور بھی پیاری لگنے لگی تھی۔ میں نے اسے مذاقاً بھی نہیں کہا تھا کہ وہ مسلمان ہوجائے یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے وہ مجھ سے کہتی کہ میں میتھوڈسٹ ہوجاؤں۔ ہمارے اپنے سہنے کے طریقے اور روزمرہ کے کام میں مذہب کا کوئی خاص دخل نہیں تھا مجھے پتہ تھا کہ وہ ایماندار ہے، رشتوں میں ایمانداری ہو تو رشتے تکلیف دہ نہیں ہوتے ہیں۔پھر ایک دن عجیب بات ہوئی۔ لز نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہونے کو تیار ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ کچھ دنوں سے اسلام کی دعوت کے بارے میں مختلف ویب سائٹ پر جا کرمعلومات حاصل کرتی رہی تھی اس نے دعوت اسلامی سے متعلق کچھ فلمیں بھی دیکھی تھیں اور مجھے بتائے بغیر تین ماہ قبل جب آفس کے کام سے اسے واشنگٹن جانا پڑا تھا تو وہاں کی مسجد کے اسلامی مرکز میں جا کر کچھ مسلمان عالموں سے ملی تھی جنہوں نے اس کے کئی سوالوں کا بہت مناسب جواب دیا تھا جس کے بعد اس نے اپنے چرچ کے راہب سے بات کی تھی جس سے اس کا کافی پرانا تعلق تھا، عیسائیوں کے درمیان اس پر اس کی گفتگو بھی ہوئی تھی اوراس کا خیال تھا کہ اسے مسلمان ہوجانا چاہیے۔
اس نے بتایا کہ اس کے والدین اس کے فیصلے سے خوش تو نہیں ہوئے تھے لیکن اس کی والدہ اوروالد دونوں نے کہا تھا کہ انہیں اس کی خوشی مقدم ہے اگر وہ مذہب اسلام اپنا کر خوش رہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے گھر والوں کو میرے بارے میں بھی بتایا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ مذہب میری وجہ سے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر بدلنا چاہتی ہے۔
میں حیران ہوگیا تھا اورمجھ سے زیادہ میرے والدین میرے خاندان کے لوگ رشتہ دار اور میرے والد کے دوست حیران ہوئے۔ کچھ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کچھ لوگوں نے بالواسطہ یہ کہہ بھی دیا کہ میرے جیسے خوبصورت اسمارٹ لڑکے سے شادی کرنے کے لیے جس کا مستقبل محفوظ ہے امریکی لڑکی تو مذہب بدل ہی لے گی پھر امریکنوں کا کیا ہے ان کا کیا مذہب اوران کے کیا اصول یہ تو دنیا کی ننگی ترین قوم ہے۔ نہ شرم، نہ حیا، سور کا گوشت کھا کھا کر بے غیرت ہوجاتے ہیں اور شراب پی کر اتنے مدہوش کے نہ انہیں اپنا خیال ہوتا ہے نہ ہی کسی اور کا۔
مذہب بدلنے کے باوجود ماں باپ بھائی بہنوں کو شادی کے لیے آمادہ کرنا آسان ثابت نہیں ہوا تھا۔ شاید میرے والد اور والدہ آخر میں اس بات سے مطمئن ہوگئے تھے کہ لز کے اسلام قبول کرنے سے کئی پشتیں جنت میں چلی جائیں گی۔ اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی تھی۔ یہ بات انہیں ابا کے مسجد کے پیش امام صاحب نے سمجھائی تھی۔
پھر ہماری شادی ہوگئی۔ گھر میں دعوتیں ہوئیں، سب نے لز کو خاندان میں شامل کرلیا۔ دونوں بڑے بھائی لز سے مل کر خوش ہوئے اور امی نے بھی لز کو بہت پسند کیا، وہ اس کی خوبصورتی سے زبردست طریقے سے متاثر ہوگئی تھیں۔ گورا رنگ تو بہرحال پاکستانیوں کی کمزوری ہے، لز نہ صرف یہ کہ گوری تھی ساتھ ہی اس کے اطوار بہت سلیقے کے تھے۔ لز کے والدین نے ایک دفعہ ہمارے پورے خاندان کو گھر بھی بلایا اوراس بات کا پورا اہتمام کیا کہ گوشت حلال ہی پکے۔ شراب سے وابستہ لوازمات ہر جگہ سے ہٹادیئے گئے تھے ان کی سمجھداری اور وضعداری سے میں خود بھی حیران رہ گیا تھا۔
ہم دونوں اپنے گھر میں خوش تھے اورمجھے لگا تھا کہ میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں۔ میرے لیے اس سے اچھا کیا ہوسکتا تھا کہ ایک خوبصورت، گوری امریکن لڑکی مسلمان ہوکر میری شریک حیات بن گئی تھی۔ دو سال کے اندر اندر لز ایک خوبصورت بیٹے کی ماں بن گئی جس کا نام اس نے خود ہی عمر رکھا تھا۔ وہ بڑے شوق سے اسلامی تاریخ پڑھ رہی تھی اوراس نے مجھے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بتائی تھیں جن سے میں آگاہ نہیں تھا اور ان سے ہی متاثر ہوکر اس نے یہ نام چنا تھا جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
ایک دلچسپ بات اس نے یہ بتائی تھی کہ حضرت عمرؓ نے پردے کے قانون کا اغاز کیا تھا مگرجس قسم کا پردہ زیادہ تر اسلامی ملکوں میں ہوتا ہے اس پردے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔ میری معلومات اس معاملے میں صفر تھیں۔ میری بھابھیاں حجاب پہنتی تھی جو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میں سمجھتا یہی تھا کہ اسلام میں حجاب کا حکم ہے۔ لز نے مجھے انٹرنیٹ پر بہت سے پڑھے لکھے پاکستانی، بھارتی اور مصری علماء کے مضامین دکھائے جن میں خواتین کو باوقار کپڑے پہننے کی تاکید کی گئی تھی، اس نے مجھ میں بھی اسلام سے دلچسپی پیدا کردی تھی۔
میں پانچ وقت نماز کا پابند نہیں تھا بس کبھی کبھار جمعہ کو نماز پڑھ لیتا تھا، سچی بات تو یہ تھی کہ لز سے شادی اوراس کے مسلمان ہونے کے باوجود میں ایک روایتی قسم کا مسلمان نہیں بن سکا تھا۔ میں خدا پر یقین ر کھتا تھا، روایتی طور پر رمضان میں روزے بھی رکھ لیتا تھا اور عیدبقرعید خاندان کے ساتھ منالیتا تھا۔ لز کا رویہ میانہ روی کا تھا، وہ شادی سے پہلے بھی ویجیٹیرین تھی اورشادی کے بعد بھی سبزی خور ہی رہی اس نے بقرعید کی قربانی کے بارے میں کسی خاص گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے وقت، لحاظ اورکام کے حساب سے نماز بھی پڑھتی اور رمضان کے روزے بھی رکھتی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ یہ اس کے اوراس کے اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں وہ کسی سے نہ بحث کرتی اور نہ ہی کسی کو سمجھانے کی کوشش کرتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ تمہارا مذہب، تمہارا خدا اور میرا مذہب میرا خدا۔
شادی کے شروع کے مہینوں میں اسے میری بھابھیوں اور خاندان کے دوسرے لوگوں نے اپنے گھر میں منعقد ہونے والے درس اور میلاد کی تقریبات میں مدعو کیا تھا۔ شروع میں تو وہ کئی دفعہ ان مذہبی اجتماعات میں گئی لیکن جلد ہی اس نے شرکت کرنا چھوڑدیا۔ اس کا خیال تھا کہ ان تقریبات میں روحانیت اوراللہ سے لگاؤ کے اظہار کے علاوہ سب کچھ تھا۔ امارت و دولت کی نمائش شکوے شکایتیں اور بہت سی ایسی باتیں تھیں جو اس کے اسلام میں نہیں تھیں۔
وہ بہت محنتی کارکن تھی، آفس میں اس کی بہت عزت تھی، اس کے کام اورذہانت کی وجہ سے وہ مسلسل ترقی کررہی تھی، میں تیزی سے اس کا ہم خیال بن گیا تھا کہ ان محفلوں میں وقت ضائع ہوتا ہے اور نفرتوں کو ہوا دی جاتی ہے میں دل ہی دل میں شکر گزار ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی بہت ہی اردو بول اورسمجھ پاتی ہے اسے اندازہ نہیں تھا کہ مردانے میں مسلمان مرد کس قسم کی گفتگو کررہے ہوتے ہیں اور کس طرح سے مذہبی بحث و مباحثہ میں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور فتوے جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
عمر کی پیدائش کے بعد ابو کی فرمائش پر میں لز کو لے کر عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب چلا گیا تھا۔ میں خود بھی سعودی عرب پہلی دفعہ گیا تھا۔ شہر مکہ اور مدینہ کی مذہبی اہمیت اپنی جگہ پر مگر وہاں دولت کی فراوانی اور ضیاع کے ساتھ عربوں کی عیاشی کی داستانیں سن کر میں حیران ہوا۔ سعودی عرب کا سفر لز کے توقعات کے برخلاف ثابت ہوا تھا۔ اسلامی تاریخ ابتدا کے زمانوں کا مکہ مدینہ اور اسلام کے ابتدائی دورکے قصے اور مسلمانوں کی جن کہانیوں کو اُس نے پڑھا تھا وہ سب کچھ سعودی عرب کے حالات سے متصادم تھا۔ وہ حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی، سعودی عرب سے واپس آنے کے بعدوہ نومسلم امریکی عورتوں کی ایک تنظیم سے انٹرنیٹ پر وابستہ ہوگئی تھی جہاں اس قسم کی باتوں پر تبادلہ خیال ہوتا جو وہ مجھے کبھی کبھی بھیج دیتی تھی ان کے کچھ سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں ہوتے تھے۔گھرمیں ہونے والی دعوتوں میں اور عید بقرعید وغیرہ کے موقعوں پر وہ میری بھابھیوں اور رشتہ داروں کے سامنے اپنے احساسات کا ایمانداری سے اظہار کر دیتی جسے عام طورپر پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ میں نے بھی یہ محسوس کرلیا تھا کہ خاندان کی عورتوں میں لز کی اسلام سے وابستگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں ایسا کیوں ہوا تھا اس کے سوالات بہت بجا تھے سعودی عرب کے بارے میں۔ مسلمان ملکوں سے آنے والے غیر انسانی واقعات اوران کو چھپانے اور ان کے بارے میں بات نہ کرنے کے بارے میں، ہمارے ہی جاننے والوں میں سے دو لوگوں نے امریکا میں دوسری شادی کرلی تھی اس کا خیال تھا کہ یہ امریکا کے قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی مخالفت مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔
اس قسم کے سوالات کرنے کی بنا پر وہ مسلمان گھرانوں اور مسجد میں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھی جانے لگی تھی۔ وہ تو ایک آزاد ملک میں آزاد پیدا ہوئی تھی جس کے والدین نے اسے محنت کرکے اعلیٰ تعلیم دلائی تھی۔ وہ چرچ جانے والی ایک باکردار عیسائی رہی تھی جسے بچپن سے سوالات کرنے کی عادت اورآزادی تھی۔ وہ امریکا کے مسلمان سماج میں گھٹن محسوس کرتی تھی تو اس کا سوال کرنا بجا تھا۔ افسوس اس بات کا تھا کہ اس کے سوالوں کا جواب نہ میرے پاس تھا اور نہ ہی ہمارے مولویوں کے پاس تھا۔ یہ کہہ کر خاموش کردینا تو آسان تھا کہ بس یہ اعتقاد کا مسئلہ ہے اسے اسی طرح سے ماننا ہوگا۔
ایک دن اس کی یہ بات سب کو بہت بری لگی تھی جب اس نے سعودی عرب میں مجمع کے سامنے ایک کے بعد ایک گردن زدنی کے کئی واقعات کو یوٹیوب پر یہ دیکھنا شروع کیا اورپھر دیکھ نہیں سکی تھی۔ بعد میں اس نے انصاف کے اس طریقے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح سے قتل کرنا انسانیت کے منافی ہے۔ اسلام کے عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اورآج کی دنیا میں بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ایک ابتدائی بحث کے بعد اس دن لز کو اسلام کی راہ سے بھٹکنے والی کہہ دیا گیا تھا وہ تو نہیں سمجھی تھی مگر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے گھر والے کیا سوچ رہے ہیں۔
پھر ایک دن ایک عجیب بات ہوئی ہم دونوں کو ہی اپنے دفتر کے کام سے کبھی کبھار امریکا کے مختلف شہروں میں جانا پڑتا تھا، اس دفعہ اسے چار دن کے لیے جانا پڑا۔ پہلے وہ ڈیٹرائٹ گئی تھی، پھر ایک دن ڈیلاس میں گزارا تھا اوردو دن کے لیے واشنگٹن رہ کرواپس آئی تھی۔ شام کو میں عمر کے ساتھ اسے ائرپورٹ لینے گیا تھا۔ وہ عمر کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی اسے بار بار پیار کررہی تھی اورمیں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی اتر رہے ہیں۔ میں اسے عمر کے لیے پیار کے آنسو ہی سمجھا تھا۔ مایں پھر مائیں ہوتی ہیں۔ مگرگھر پہنچ کر عمر کو سلا کر اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں نے گزشتہ دنوں کی خبریں دیکھیں یا سنی ہیں جس کا مجھے بالکل بھی وقت نہیں ملا تھا مگر وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
اس نے بڑی اداسی کے ساتھ بتایا تھا کہ کس طرح سعودی حکومت کی مرضی سے عدنان خاشقجی نام کے صحافی کو ترکی میں سعودی قونصلیٹ میں بدترین تشدد کے بعد قتل کیا گیا اورشاید لاش کو تیزاب میں پگھلادیا گیا تھا۔ بے چاری لز بہت پریشان رنجیدہ اوراداس تھی، ایسا کیسے کرسکتے ہیں یہ لوگ۔ کیوں کیوں کیا ان لوگوں نے ایسا؟ میں نے بھی تفصیلات پڑھی تھیں ا ورحیران ہوتا گیا تھا۔ عدنان خاشقجی واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتا تھا اور سعودی ہونے کے ناتے سعودی حکمرانوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتا رہتا تھا۔ سعودیوں کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ وہ واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبار میں سعودی حکمرانوں کے طور طریقوں پر تنقید کرے۔
وہ ترکی میں سعودی حکومت کے سفارتخانے کے دیے ہوئے دن اور وقت پر اپنی منگیتر کے ساتھ قونصل خانے گیا تھا جہاں سے اسے اپنی پہلی بیوی سے ہونے والے طلاق کے کاغذات کی تصدیق شدہ کاپی حاصل کرنا تھی کیونکہ ان کاغذات کے بغیر وہ امریکا میں دوسری شادی نہیں کرسکتا تھاجب کہ اس کی منگیتر قونصل خانے کے باہر اس کا انتظار کررہی تھی۔ قونصل خانے میں موجود سعودی اہلکاروں نے اسے تشدد کرکے قتل کردیا تھا اورلاش کو تیزاب میں ڈال کر مکمل طور پر پگھلا دیا۔
اخباروں کے مطابق اسی شام کو لاش کو ٹکڑوں کی صورت میں قاتل اپنے ساتھ لے کر خصوصی طیارے پر سعودی عرب چلے گئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیسے لوگ ہیں یہ دوسرے ملک میں مخالفت کرنے والے کو اس طرح سے ختم کردیتے ہیں۔ وہاں کوئی کیسے بولتا ہوگا مخالفت میں۔ کیا کرتے ہوں گے ان کا۔ کس طرح سے برباد کرتے ہوں گے۔ مخالفوں کو ان کے خاندانوں کو یہ سوچ کر ہی میرے تمام جسم پر جیسے لرزہ سا طاری ہوگیا تھا۔
کئی دنوں تک ہم دونوں خاشقجی کے بارے میں باتیں کرتے رہے اورانٹرنیٹ سے آگہی حاصل کرتے رہے۔ ایک دن آفس میں ہی لز کا ای میل آیا تھا کہ چند امریکی مسلمان عورتوں نے عدنان خاشقجی کی موت کے حوالے سے سعودی حکومت کوایک خط لکھا ہے جس میں حکومت پر تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ عدنان خاشقجی کے بارے میں صحیح بات بتائی جائے اور قتل کرنے والے مجرموں کو سزا دی جائے۔ اس نے یہ خط اپنے جاننے والے سارے مسلمانوں کوبھیجا تھا کہ وہ اس پر دستخط کریں جس کے بعد اسے واشنگٹن کے سعودی ایمبیسی میں جمع کرایا جاسکے گا۔
شام کو میں نے پہلی دفعہ لز کی شکل پر غم کے ساتھ غصہ دیکھا۔ یہ خاشقجی کا غم اور اس کی منگیتر کا غم تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس درندگی کے خلاف کھڑا ہوجانا چاہیے۔ ظلم و جبر کے خلاف اور انصاف کے لیے تو کھڑا ہونا بہت ضروری ہے اس کے چہرے پر سوال تھا۔ اس نے غصے سے بتایا کہ اس کے آج کے ای میل کے بعد خاندان اورخاندان سے وابستہ کئی عورتوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کا آلہ کار بننے کا الزام دے دیا تھا۔ میری بھابھی نے لکھا تھا عربوں کے بارے میں بری بات لکھنا، کہنا سننا حرام ہے۔ وہ نبیوں کی سرزمین ہے ان کا حساب اللہ لے گا ہم نہیں لے سکتے، تم مسلمان بن کر ہمارے خاندان میں آئی تھیں، اب دوبارہ جہنمی بن گئی ہو۔