دو آرزوئیں از خلیل جبران

مصنف: خلیل جبران
مترجم: خلیل الرحمان
تمثیل: دو آرزوئیں
کتاب:ایک آنسو اور ایک مسکراہٹ (1914)
رات کی گہری خاموشی میں فرشتۂ اجل، خداوند کے حضور سے زمین کی طرف اترتا ہے۔ شہر پر منڈلاتے ہوئے وہ گھروندوں پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتا ہے۔ اور خوابوں کے دوش پر اڑتی ہوئی روحوں کی پرواز ملاحظہ کرتا ہے اور نیند کے مزے لوٹتے فانی انسانوں کو دیکھتا ہے۔
جب ماہتاب افق پر سے روپوش ہوتا ہے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو فرشتۂ اجل گھروں میں سے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے گزرتا ہے کہ کسی شے کو بھی نہ چھوئے، بالآخر وہ ایک عالیشان محل میں آن پہنچتا ہے۔ مقفل دروازوں کو بغیر چھیڑے عبور کرتے ہوئے وہ ایک امیر آدمی کے سرہانے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اور پھر اپنی پیشانی پر موت کے سرد ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی نیند میں ڈوبا ہوا شخص دہشت کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دیتا ہے۔
اور جب اس نے اپنے سرہانے اس عفریت کو دیکھا، تو وہ خوف اور غصہ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولا، ”دفعہ ہو جاؤ، میرے ڈراؤنے خواب؛ میرا پیچھا چھوڑ دو اے بھیانک بھوت۔
کون ہو تم؟
اور اس جگہ پر گھسے کیسے ہو؟
کیا چاہیے ہے تمہیں؟
میرے گھر سے فوراً نکل جاؤ۔ میں اس گھر کا مالک ہوں اور میں اپنے غلاموں اور محافظوں کو بلا لوں گا اور انہیں تمہیں مارنے کا حکم دے دوں گا۔ “
فرشتہء اجل نرم لیکن گرجدار آواز میں بولا، ”میں موت کا فرشتہ ہوں، اٹھو اور چلو میرے ساتھ! “
وہ شخص بولا، کیا چاہتے ہو تم؟
ابھی تک جب کہ میں نے اپنے دنیاوی کام دھندے ختم نہیں کیے ہیں تم کس لیے یہاں آن دھمکے ہو؟
میرے جیسے طاقتور شخص کے پاس تم کیونکر آئے ہو، جاؤ اور کسی کمزور اور لاچار شخص کے پاس جاؤ اور اسے اپنے سنگ لے جاؤ۔
” مجھے تمہارے خونی پنجوں اور کھوکھلے چہرے سے گھن آتی ہے، اور میری آنکھیں تمہارے مہیب استخوانی پروں اور مردار جسم کو دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔ “
خوف و اضطراب کی اسی کیفیت میں تھوڑی دیر بعد وہ پھر گڑگڑایا، نہیں، نہیں، اے مہربان موت! میری اول فول باتوں کا برا نہ ماننا، کہ خوف کے عالم میں وہ سب بھی عیاں ہو جاتا ہے جس کو ہمارا دل چھپانا چاہتا ہے۔
میرے سونے چاندی کے خزانوں میں سے جو دل چاہے لے لو، یا میرے کچھ غلاموں کی روحیں قبض کر لو، پر خدارا! میری جاں بخشی کر دو۔ ابھی میری زندگی میں بہت سے کام کرنے باقی ہیں ؛ ابھی بہت سے لوگوں نے میرے مال و اسباب لوٹانے ہیں ؛ میرے جہاز میرا سامان لے کر ابھی بندرگا ہ پر نہیں اترے ؛ میری بس اتنی سی خواہش ہے کہ میری جان بخش دو۔ ”
اے موت! میرے حرم میں دنیا کی حسین ترین عورتیں موجود ہیں ؛ ان میں سے تمہاری پسند کی کنیز میری طرف سے تمہارے لیے ایک تحفہ ہوگا۔ سنو اے موت۔ میرا بس ایک ہی بیٹا ہے اور میں اسے بیحد چاہتا ہوں کہ زندگی میں میری خوشی صرف اسی سے وابستہ ہے۔ میں اپنی سب سے قیمتی شے قربان کرتا ہوں۔ یوں کرو، میری جگہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ، پر مجھے چھوڑ دو۔
موت کا فرشتہ بولا، ”تم امیر نہیں بلکہ قابل رحم حد تک غریب ہو۔ “
پھر موت نے دنیا کے اس غلام کا ہاتھ پکڑا، اس کو فرشتوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے اصل حقیقت کا مزہ چکھائیں۔
اور پھر فرشتہء اجل غریبوں کی جھونپر پٹیوں میں سے چلتا ہوا سب سے مفلس شخص کے مکان پر پہنچا۔ گھر میں داخل ہو کر وہ ایک جوان کے بستر کے قریب پہنچاجو کہ دہرا ہو کر اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ موت نے اس کی آنکھوں کو چھوا، جب اس جوان نے موت کو اپنے سرہانے دیکھا تو وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا اور بھرپور محبت اور چشم داشت انداز سے بولا،
” اے حسین موت! میں حاضر ہوں۔ میری رو ح کو قبول کرو۔
کیونکہ تم میرے خوابوں کی آس ہو۔ ان کی تکمیل بنو! مجھے اپنے سینے سے لگا لو،
اے میری محبوب موت! تم بہت مہربان ہو؛ مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔
تم خداوند کی نامہ بر ہو، مجھے اس کے پاس لے چلو۔ تم صداقت کا سیدھا رستہ ہو اور دردمندی کا قلب ہو؛ مجھ سے غافل مت بنو۔
” میں نے بیسیوں بار تمہاری تمنا کی، لیکن تم نہ آئیں ؛ میں نے تمہار ی چاہت کی مگر تم ن مجھ سے گریزاں ہی رہیں ؛ میں تمہیں صدائیں لگاتا رہا مگر تم نے میری ایک نہ سنی۔ لیکن اب تم نے میری عرض سن لی ہے۔ میری روح کو اپنے سینے سے لگا لو، محبوب موت! “
موت نے اپنے مہربان ہاتھ اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر رکھے، اس کی تمام تلخیوں کا خاتمہ کیا اور حفاظت سے لے جانے کے لیے اسے اپنے پروں میں سمیٹ لیا۔ اور آسمان کی طرف جاتے ہوئے ایک خاموش نصیحت کی۔
” صرف وہی لوگ ہی ابدیت حاصل کرپاتے ہیں، جو کہ زمین پر ابدی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ “