جب سے می تو کی وبا عام ہوئی ہے اس کی لپیٹ میں ناجانے کتنے افراد آ چکے ہیں اور ناجانے اور کتنوں کو ابھی آنا ہے۔ سوچ کہ بھی روح لرز جاتی ہے۔ اس وائرس کی لپیٹ میں آنے والوں سے ہوں اس لیے جو کوئی بھی اس ذلت ورسوائی کی لپیٹ میں آتا ہے میں اس کے ساتھ ہوں اس کی بہن کی طرح بالکل ویسے ہی جیسے میں اپنے بھائی کے ساتھ ہوں۔
بات کا آغاز کرنے سے پہلے کیوں نہ تھوڑی سی یادداشت تازہ کی جائے۔
جامعہ کراچی پاکستان کی چند بڑی سرکاری درسگاہوں میں سے ایک ہے جہاں میرٹ پہ نوکری مل جاتی تھی۔ یہاں تھی اس لیے استعمال کیا کیونکہ کل جو ہوا اس کے بعد یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ جامعہ کراچی بھی سندھ یونیورسٹی کے ماڈل کی طرف رواں دواں ہے۔
می ٹو کو ابھی ”می ٹو“ کا ٹائٹل نہیں ملا تھا جب پروفیسر ڈاکٹر سحر انصاری پہ ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اور پچھتر سالہ بزرگ کو جنسی درندہ ثابت کر کے جامعہ کراچی سے باہر کیا گیا۔ دوسرے نمبر پر سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے نابینا ڈاکٹر صابر مائکل کو جنسی درندگی کے الزام میں سسپینڈ کیا گیا۔ اس وقت تک سائبر کرائم لا نہیں آئے تھے۔ لیکن دوہزار سولہ میں انتہائی سخت سائبر کرائم لا بنائے گئے جو ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامی ہیں۔
ماہ اگست میں یہ نیا قانون متعارف ہوا اور 4 اکتوبر دوہزار سولہ کو جامعہ کراچی کے نوجوان پی ایچ ڈی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحان کامرانی کو جامعہ کراچی کے دروازے سے ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ نے اغواء کیا اور تشدد کر کے ان سے اقرار نامہ کروایا۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پھر نہایت دھوم دھام سے میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ جو کئی ماہ جاری رہا۔ سوشل پرنٹ الکٹرانک میڈیا پہ ہر طرح سے تماشا لگایا گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس پورے حادثہ میں جامعہ کراچی کے اساتذہ بھی میڈیا کی جھوٹی کہانی سے سو فیصد متفق رہے۔ بلکہ دشمن ٹولے کو اپنے سر آنکھوں پہ بٹھایا۔
شیخ سعدی ایک مقام پہ فرماتے ہیں کہ سانپ کا بچہ سانپ ہی ہوتا ہے اور موقع ملتے ہی ڈستا ہے۔ ڈاکٹر فرحان کے خلاف پوری تحریک شعبہ ابلاغ عامہ سے ہی چل رہی تھی سائبر مختاراں کو مسلسل شام کی کلاسز بھی دی جارہی تھیں کہ گزشتہ ماہ ”می ٹو“ کا شور پھر زور سے مچا اس بار زلزلے کا مرکز شعبہ ابلاغ عامہ ہی بنا۔
پہلے پہل سنمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہیں میرے کان تو نہیں بجے۔ اس بار الزام بھی ایک ایسے فرد پہ لگا جس کی لابی بھی اسٹرانگ ساتھ جماعت اسلامی کی بھی پہچان۔ اس مرتبہ ڈاکٹر اسامہ شفیق اور نعمان انصاری پہ نشانہ لگا لیکن دشمن نے ایف آئی آر کٹوانے سے پہلے میڈیا ٹرائل کر دیا۔ اس لیے ابھی تک یہ دونوں حضرات باہر ہیں۔
کئی روز سے سنمجھ نہ آتا تھا کہ ابلاغ عامہ کے ٹیچرز پہ کون ہے جس بے ہاتھ ڈالا اور وہی پرانا ڈرامہ اسٹیج کیا؟
آخر کار آج بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔
دو مئی کی صبح روزنامہ جنگ میں ایک خبر پڑھنے کو ملی جو زرد صحافت کی انتہا اور روزنامہ جنگ جیسے اخبار کو ہرگز زیب نہیں دیتی تھی۔ ”آج جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے لیے لکچرار کی بھرتی کے لیے سلیکشن بورڈ کی میٹنگ ہے جس میں دو ایسے امیدوار انٹرویو کے لیے آ رہے ہیں جن میں سے ایک سائبر کرائم میں خود ملوث ہے اور دوسرے کا بھائی سائبر کرائم کی وجہ سے گزشتہ ڈھائی برس سے جیل میں ہے۔ “
کہانی دلچسپ ہے غور سے پڑھیں! یہ دونوں وہ لوگ ہیں جو سب سے نمایاں نمبروں سے GAT میں پاس ہوے ہیں اور ہر اعتبار سے ان دونوں کا ہی میرٹ تھا اس جاب کے لیے۔ دونوں کہ علاؤہ پچیس اور بھی آسامیاں تھیں جو امتحان پاس کر کے انٹرویو کے لیے آئی تھیں۔ ان میں سے کئی پی ایچ ڈی اور کئی ایم فل بھی تھے۔
لیکن ان پچیس لوگوں کی آنکھیں حیرت سے اس وقت کھلی رہ گئیں جب ایک ایسی ”خاتون“ کا نام سنا جو کسی بھی مرحلے سے گزری ہی نہیں۔ لیکن سلیکشن بورڈ کی نظر ان پہ جمی۔
محترمہ نے بالکل ویسے ہی مقابلے میں کامیابی حاصل کی جیسے تھری ایڈیٹس میں چتر راما لنگم کو جب اپنا اول آنا مشکل لگتا تو وہ اپنے مقابلے سے ہٹانے کے لیے گندے میگزین دوسرے ہم جماعتوں کے کمروں میں ڈال آتا تاکہ وہ پڑھائی میں دل نہ لگائیں۔ سلیکشن بورڈ سے پہلے ایک پہ جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ساتھ میں اس کے ساتھیوں کو بھی گھسیٹا۔ دوسرے کیونکہ ڈاکٹر فرحان کامرانی کے بھائی ہیں اس لیے انہیں ملزم کا بھائی بنا دیا گیا۔
ظاہر ہے جب آپ کی بھابھی جنگ میں رپورٹر ہو، والد اندرون سندھ کی جامعہ کے وی سی اور بولو بھی، جیسی جال ساز این جی او آپ کی سہیلی کی ہو تو کامیابی آپ کے ہی قدم چومے گی۔
ان تمام ناکام ساتھیوں کو دلی مبارکباد آپ سب مگرمچھوں سے بھرے تالاب میں جانے بچ گئے ہیں، خوشی منائیں۔ ورنہ آپ کا بھی وہی حشر ہوتا جو ڈاکٹر فرحان کامرانی اور اسامہ شفیق کا ہو رہا ہے۔
آخر میں آپ سب کی معلومات میں اضافے کے لیے جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدوار وں کی لسٹ بھی لگا رہی ہوں دیکھیں اور سر دھنیں۔