میرے خواب پورے ہوتے ہیں لیکن مجھے عزت سے اترنا ہے

ماریہ انجم

انٹر میڈیٹ کے امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے اپنے لئے صحا فت کے شعبے کا انتخاب کیا اور جنوبی اضلاع سے تعلق ہونے کی بنا پر سب نے مشورہ دیا کہ کوہاٹ یونیورسٹی میرے لئے ایک بہترین آپشن ہے جو کہ میرے آبائی گھر سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور آج تقریبا چار سال سے میں کوہاٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہوں۔ سفر کرنے سے آج بھی مجھے اتنے ہی چڑہے جتنی بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق ہونے کی بنا پر لوکل ٹرانسپورٹ استعمال کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی اور کرتی بھی کیوں؟

میری طرح کئی لڑکیاں روز ان میں سفر کیا کرتی ہیں۔ ا ایک سال سے مجھے اسلام آباد جانے کے بہت سے مواقع مل رہے ہیں لیکن سفر کرنے سے اب بھی ویسی ہی خار ہے جیسے پہلے دن تھی کوہاٹ سے راولپنڈی جانے کے لئے سب سے آسان طریقہ جو مجھے نظر آتا تھا وہ ٹرین سے جانے کا تھا جس کے لئے مجھے صبح سویرے لوکل وین سے جانا پڑتا تھا جس کو عام زبان میں سوزوکی کہا جاتا ہے جس کو سوچتے ہی مجھے کوفت محسوس ہوتی ہے۔ اس سوزوکی وین کی یہ خاصیت (پتہ نہیں کہنا چاہیے یا نہیں ) اس میں مرد اور خواتین ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ اتنا کم ہوتا ہے کہ ایک جھٹکا لگنے سے آمنے سامنے بیٹھے لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔

اس سوزوکی وین کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ جن مرد حضرات کو اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی وہ اس کے پیچھے لٹک کر جاتے ہیں اور مجھ جیسی لڑکیاں جو اکیلے سفر کرتی ہیں اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد ان مرد حضرات سے گزارش کرتی ہیں کہ بھائی صاحب ہمیں اترنے کا موقع دیں اور اسی اثناء میں سیٹ سے اٹھتے ہوئے سامنے والے بھائی صاحب سے ٹکرانا تو اس طرح لازمی ہے جس طرح مطالعہ پاکستان کا مضمون ہر ڈگری میں، اور پھر اترتے وقت ایک دو حضرات کے ساتھ ٹکرانا تو معمولی بات ہے۔

کوہاٹ کی خراب سڑکوں پر اٹکھیلیاں کھاتی ان سوزوکیوں کو دیکھ کر میرے دماغ میں بہت سے خیالات نے جنم لیا، میں نے ہمیشہ سے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو بہت سی چیزوں سے محروم دیکھا ہے چاہے وہ گیس بجلی کا معاملہ ہو یا پھر سفری سہولیات، معدنیات اور ذخائر سے مالا مال یہ اضلاع اپنی بدقسمتی کا رونا کئی برسوں سے رو رہے ہیں لیکن آج تک حقیقی معنوں میں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ بہت سے شہروں میں خواتین کو باعزت سفری سہولیات میسر نہیں لیکن آئے دن اخبارات میں خبریں سننے کو ملتی ہیں، کبھی مردان میں خواتین کے لئے پنک بسوں کے منصوبے کے اعلان تو کبھی ایبٹ آباد میں خواتین کے لئے الگ بسوں کے مطالبات لیکن اس کو میں بدقسمتی کہوں یا پھر ناہلی کہ جنوبی اضلاع کی خواتین کے لئے نہ تو اعلانات کیے جاتے ہیں اور نہ ہیں مطالبات۔

بہت سے شہروں میں خواتین لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہیں لیکن وہاں ان کے لئے الگ جگہ مختض ہوتی لیکن بدقسمتی سے ہمیں وہ بھی میسر نہیں اور ایک باعزت معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہمیں ان گاڑیوں میں چڑھتے اور اترتے ہوئے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ بغیر ٹکرائے کیسے اتروں؟ مجھ جیسی بہت سی خواتین کے لئے سفر کرنا ایک برا تجربہ اس وقت ثابت ہوتا ہے جب باقی مرد سواریوں کے ساتھ ساتھ ڈرایؤر حضرات بھی اپنی گھوریوں سے نوازنا شروع کردیتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ اس وقت ہوجاتا ہے جب کوئی خاتون فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ جائے اس وقت ڈرائیور صاحب کو دنیا جہاں کے عشق معشوقی والے گانے یاد آجاتے ہیں اور دنیا ومافیہا سے بے خبر کانوں کے پردے پھٹ جانے کی حد تک ان گانوں سے محظوظ ہوا جاتا ہے۔

اسی حوالے سے جب میں نے باقی لڑکیوں سے بات کی جو روز پبلک ٹرانسپورٹ کا ستعمال کرتی ہیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے، کسی نے ڈرائیور حضرات کی بے جا نوازشوں کے قصے سنائے تو کسی نے مرد سواریوں کے بیہودہ اور معنی خیز کلمات کی داستانیں سنائیں تو گویا میں اس نتیجے پہ پہنچی کہ اس آگ کے دریا میں مجھے اکیلے ہی نہیں ڈوب کر جانا پڑتا بلکہ میرے ساتھ ساتھ باقی خواتین بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔

مجھے کافی لوگوں سے اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ جب وہ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہی گھسے پٹے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو ان کے خواب پورے کرنے دوو لیکن کیا یہ بات اس لحاظ سے نہیں کہنی چاہیے کہ لڑکیوں کو گھر کے باہر بھی ان کے حقوق دو، ان لڑکیوں کے حقوق کے بارے میں کون بولے گا جن کو ان کے گھر سے تو حقوق پورے ملتے ہیں لیکن گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں یہ احساس ہوجاتا ہے کہ زمانے کی گرم ہوا ان کے نازک خوابوں کو پگھلانے کی پوری تگ و دو میں لگے ہوئی ہے۔

حق صرف یہ نہیں ہے کہ پڑھائی اور نوکری کی اجازت ملنا بلکہ اس کے بعد معاشرے میں باعزت طریقے سے اپنی منزل تک پہنچنا بھی خواتین کا حق ہے، وہ جب گھر سے نکلے تو اس کو ہزار بار سوچنا نہ پڑے، جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو اس کی طرف اٹھتی نگاہیں اور اس تک پہنچتے کلمات سارا دن اس کا پیچھا نہ کرے ”منزل تک پہنچینے کے بعد باعزت طریقے سے اسے اپنا کام کرنے دیا جائے۔ خواتین کو صرف آزادی ملنے سے ان کے حقوق پورے نہیں ہوجاتے بلکہ اس آزادی کے ساتھ ساتھ عزت ملنا بھی اس کا حق ہے۔

جب یہ بات کی جاتی ہے کہ لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ پھر گھر میں بیٹھ جاؤ، باہر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں باہر جانے کی ضرورت ہو یا نہ ہونے لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت بہت سے لوگوں کو ضرور ہے کہ گھر بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، باہر کام کرنے کے لئے جانے کے لئے تو روکا جا سکتا ہے لیکن کچھ ضروریا ت زندگی ایسی ہیں کہ جس کے لٗے گھر سے نکلنا پڑے گا اور پھر انہی گاڑیوں میں اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔

صرف خیبر پختونخوا نہیں بلکہ تمام خواتین کے لئے ایک صاف ستھرا، باعزت اور محفوظ ٹرانسپورٹ سسٹم نہ صرف خواتین کے لٗے ضروری ہے بلکہ کسی بھی ملک کی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ ایک خاتون کے حقوق اس کے گھرتک محدود نہیں ہیں بلکہ پبلک ڈومین میں بھی ان کے کچھ حقوق ہیں جو کہ پورے ہونا لازمی ہیں۔

خواتین کے لئے آسان سفری سہو لیات کا مطالبہ حکومت سے تو کرتے ہی رہتے ہیں لیکن کیا ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اگلی بار عورت مارچ میں۔ کھانا خود گرم کرو کے پلے کارڈ کے بجاٗے مجھے عزت سے اترنا ہے کا پلے کارڈ اٹھا لیا جائے؟