1982 میں یاسر عرفات کو قتل کرنے کا منصوبہ کیسے آخری وقت پر ختم کیا گیا؟

یاسر عرفات
تصویر کے کاپی رائٹHULTON ARCHIVE
انویسٹیگیٹو رپورٹر رونن برگمین نے اپنی نئی کتاب میں 1982 کی لبنان جنگ کے دوران اسرائیل کی فلسطینیوں کے صدر یاسر عرفات کو قتل کرنے کے ایک قصے کا انکشاف کیا ہے۔
برگمین کی نئی کتاب ’رائز اینڈ کِل فرسٹ‘ (Rise And Kill First) جنوری کے آخر میں شائع ہو گی۔
اس کتاب میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اس جہاز کو مار گرانا چاہتا تھا جس میں یاسر عرفات سفر کر رہے تھے۔ تاہم اس جہاز کو گرانے کا فیصلہ آخری وقت پر واپس لے لیا گیا کیونکہ اس میں یاسر نہیں بلکہ ان کے بھائی فتحی عرفات سفر کر رہے تھے۔
اس کتاب میں ایسے کئی قصے ہیں جن میں اسرائیلی انٹیلیجنس کی فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف کارروائیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں خاص توجہ پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات کو 1982 میں قتل کرنے کے فیصلے پر ہے۔
کتاب میں لکھا ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع ایریل شیرون اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل رافیل ایٹن نے یاسر عرفات کو اس وقت قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جب مناخم بیگن وزیر اعظم تھے۔
اس وقت کے فضائیہ کے سربراہ ڈیوڈ ایوری کو اس آپریشن کے بارے میں تحفظات تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر اس جہاز میں عرفات نہ ہوئے تو سویلین جہاز گرانا جنگی جرائم کے زمرے میں آئے گا۔
ایف 15
تصویر کے کاپی رائٹ
تاہم شیرون اور ایٹن اپنے مطالبے پر اڑے رہے اور وعدہ کیا کہ اس حوالے سے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے نتائج اور قانونی ذمہ داری قبول کریں گے۔
22 اکتوبر 1982 کو موساد کو پی ایل او کے دو مخبروں سے معلومات ملیں کہ یاسر عرفات اگلے روز نجی طیارے سے ایتھنز سے قاہرہ جائیں گے۔
دو موساد ایجنٹوں کو ایتھنز ایئر پورٹ بھیجا گیا کہ وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ یاسر عرفات جہاز پر سوار ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ کے دو ایف 15 طیاروں نے اڑان بھری لیکن اس وقت بھی فضائیہ کے سربراہ کو اس اطلاع پر شک تھا۔ تاہم موساد اس بات کی تصدیق کر رہا تھا کہ جہاز پر سوار ہونے والا شخص یاسر عرفات ہی تھا۔
جس وقت ایف 15 طیارے اس نجی جہاز کی جانب جا رہے تھے اس وقت فضائیہ کے سربراہ ایوری نے مزید اقدامات لیے اس بات کی تصدیق کے کہ یاسر عرفات جہاز پو سوار ہیں یا نہیں۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں غلط شخص کو ہلاک نہ کر دیا جائے۔
انھوں نے ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ اور موساد سے بصری شناخت مانگی۔
ایف 15 طیاروں کو اڑان بھرے اور جہاز کو مار گرانے کے حکم کے انتظار میں 25 منٹ ہو چکے تھے جب ایئر فورس کمانڈر کو فون آیا کہ یاسر عرفات اس دن ایتھنز میں تھے ہی نہیں۔
شاتیلا
تصویر کے کاپی رائٹ
فتحی عرفات اس جہاز پر 30 زخمی فلسطینی بچوں کو علاج کے بعد قاہرہ لے کر جا رہے تھے جو لبنان جنگ میں صبرا اور شاتيلا کیمپوں میں قتل عام میں زخمی ہوئے تھے
ایوری نے پائلٹس کو پیغام دیا: ’ہم مزید معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ٹارگٹ پر نظر رکھو اور انتظار کرو۔
تقریباً تیس منٹ بعد موساد اور ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کے ذرائع نے ایوری کو مطلع کیا کہ نجی جہاز پر سوار شخص یاسر عرفات کا چھوٹا بھائی فتحی عرفات ہے۔
فتحی عرفات بچوں کے ڈاکٹر تھے اور وہ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے بانی اور وہ اس جہاز پر 30 زخمی فلسطینی بچوں کو علاج کے بعد قاہرہ لے کر جا رہے تھے۔ یہ 30 بچے لبنان جنگ میں صبرا اور شاتيلا کیمپوں میں قتل عام میں زخمی ہوئے تھے۔


بشکریہ بی بی سی اردو