فاطمہ نعیم
سندھ کی سرزمین اور تہذیب کئی سو سال پرانی اور نایاب ہے حس وقت سندھ اور ہند کا نام ایک ساتھ لیا جاتا تھا۔ سندھ صوفیوں کئی کئی دھرتی، فنِ خطاطی اور تعمیرات کا مرکز، محبت اور امن کا گہوارہ اور ہنر مندی کا شاہکار کہلاتا ہے۔ سندھ کا بچہ بچہ ہنر مند، ذہین، جفاکش، اور مہمان نواز ہے۔ جہاں ہم مردوں کو کھیتوں میں زراعت سے نبرد آزما ہو کر زمین کا سینہ چیر کر رازقِ کائنات کی رحمت سے بہرہ ور ہوتے ہوئے رزق کے حصول کا وسیلہ بنتے ہوئے دیکھتے ہیں وہیں سندھ کی عورتیں ہاتھ کے ہنر اور کشیدہ کاری کے ہنر سے مالامال ہیں۔
صبح مُرغ کی بانگ سے اُٹھ کر رب کی حمد و ثناء کے بعد اپنے روزمرہ کے کاموں کو جلدی جلدی مکمل کر کے اور گھر کے مردوں کو اپنی دعاؤں کے سائے میں رخصت کرنے کے بعد ابن کے فارغ وقت کی مصروفیت یا یوں کہیں کہ اِن کے فارغ وقت کو کارآمد بنا کر اِن کو اضافی آمدنی فراہم کرنے کا ذریعہ اِن کی خوشی یہی ہنر مندی ہے جو کہیں کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو خوبصورتی سے جوڑ کر سندھ کی ثقافت کا ایک اچھوتا شاہکار رِلی بنانے میں اور کہیں رنگ برنگے دھاگوں کو باریک سوئی میں پرو لر جہاں سادے کپڑے کو خوبصورت بناتی ہیں وہیں اپنی اُنگلیوں کو بھی فگار لر لیتی ہیں۔
رِلی سازی، ایپلک ورک، سندھی کڑھائی، موتی ٹانکا، زنجیرہ ٹانکا اور ایسی کتنی ہی مختلف ناموں کی کشیدہ کاری جن کی خوبصورتی سکونت میں نازک پر اندر سے ایک مضبوط عورت کے ہاتھوں کی سلیقہ مندی کو ظاہر کرتی ہیں، یہ ہنر مندی پوری دنیا میں جانی جاتی ہے۔ شاہ لطیف کی سات سورمیوں کے سروں میں رچی بسی یہ عورت جب کپڑوں کے مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو اپنے کمزور ہاتھوں سے سوئی دھاگے کو استعمال کرتے ہوئے جوڑتی ہے تو اِس میں وہ صوفی نظر آتا ہے جس کا کہنا تھا کہ ہم کاٹنے کا نہیں جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ جب دھاگوں کے سِروں کو سُلجھاتے ہوئے مختلف رنگوں کے دھاگوں کو کپڑے کے رنگوں کے امتزاج کے حساب سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرتی ہے تو شاعر کے اِس مصرعے کا پرتو لگتی ہے حس میں عورت کے لئے ہی کہا گیا کہ
”وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“
سندھ کے مختلف علاقے مختلف قسم کی کشیدہ کاری اور عورتوں کی ہنر مندی کے لئے مشہور ہیں۔ حیدرآباد میں اِن عورتوں کی ہنرمندی کانچ کی چوڑیوں کی شکل میں نظر آتی ہے تو ہالا میں اجرک سازی اور بلاک پرنٹنگ کی شکل میں، تھوڑا آگے خیرپور تک آئیں تو ہائی وے سے گُزرتے تمام مسافروں کو رنگ برنگی رِلیاں یہاں کی عورتوں کے خوبصورت ذہنوں کا عکس دکھاتی ہیں تو وہیں شکارپور اور لاڑکانہ کی عورتوں کو کِیا ہوا ایپلک ورک دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے اور یہ سوچنا پر مجبور کردیتا ہے کہ دو مختلف کپڑوں کو ملا کر شاہکار تخلیق کرنے والی عورت اپنے گھر کے باسیوں کے مختلف مزاجوں کو بھی ایسے ہی ایک دوسرے میں سما کر رکھتی ہوں گی۔
جیکب آباد میں نظر آنے والی گندم کے باریک تیلوں سے بنی ہوئی چنگیریں اِن عورتوں کی معصوم سوچوں اور بامقصد محنت کش زندگیوں کا آئینہ ہیں وہیں کندھ کوٹ کشمور کے علاقے کے کٹّر رسم و رِواج میں جکڑی عورتوں کے ہاتھوں سے بنے بلوچی گگھے اِس بات کا ثبوت ہیں کی سخت اور جفاکشی والی زندگی سے بھی مثبت خیالات تخلیق پاسکتے ہیں۔ یہ سب مِل لر سندھ کی تہذیب کو مزید خوبصورتی عطا کرنے کے ساتھ دنیا میں روشن بھی رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ کی یہ ہنر مند عورتیں سندھ کا حُسن اور سنگھار ہیں۔ محدود وسائل کو بروئے کار لاکر اپنے ہنر کے رنگوں سے تہذیبِ سندھ کو آج کے دور میں بھی قدیم متانت کے ساتھ زندہ رکھنے والی عورتیں سچ میں باکمال ہیں