سعدیہ احمد
اب احباب کہیں گے کہ ہماری عادت ہے ہر بات میں کیڑے تلاش کرنے کی۔ کوچہ جاناں میں ایسے بھی حالات نہیں جیسا ہم کہتے ہیں۔ جن مسائل کی نشاندہی ہم کرتے ہیں یہ آج کی بات نہیں۔ یہ تو روز ازل سے چلتے آ رہے ہیں۔ بس تب سوشل میڈیا نہیں تھا لہذا بات کھلتی نہیں تھی۔ شروع سے یوں ہی ہوتا آ رہا ہے۔
بادشاہت کا زمانہ تھا۔ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ بادشاہ نے کیا کر دیا ورنہ تب بھی یہی سب ہوتا تھا۔ لوگ یوں ہی ایک دوسرے کا حق مارتے تھے۔ حق بات کرنے پر زنداں میں ڈال دیے جاتے تھے۔ عورت بھی شروع ہی سے مرد کی ذاتی ملکیت ہے۔ وہ اس کا مالک ہے۔ مختار ہے۔ جو چاہے کرے۔ بس اس زمانے کی عورتیں اس قدر سرکش نہیں تھیں۔ مرد کے کہے کو حرف آخر مانتی تھیں۔ اگر شوہر مار پیٹ بھی کرتا تو اسے اس کا پیار ہی سمجھتیں۔ ہوتا تو شروع سے یہی آ رہا ہے نا۔ بس اب بات کھل جاتی ہے۔ سوشل میڈیا آ گیا ہے۔ عورتیں سرکش ہو گئی ہیں۔ لوگوں کو حکمرانوں کے سامنے بولنا آ گیا ہے۔ مسئلے وہی ہیں بس سوشل میڈیا آ گیا ہے۔
یعنی ثابت یہ ہوا کہ تہذیب کے بظاہر اس قدر ارتقا کے باوجود بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔ مسائل وہی ہیں۔ حل تب بھی نہیں تھے۔ اب بھی نہیں ہیں۔ بس ہو ہا ہے۔ شور و غوغا ہے۔ بے پر کا واویلہ ہے۔ لہذا اب بھی ہر بات پر چپ سادھ لی جائے۔ یوں ظاہر کیا جائے کہ سب ہرا ہرا ہے۔
سال 2016 میں پنجاب اسمبلی میں تحفظ خواتین بل پاس ہوا جس میں عورتوں کو ہر قسم کے تشدد سے محفوظ رکھنے کی اپنی سی سعی کی گئی۔ یہ بل خاصا جامع تھا۔ بات صرف جسمانی اور جنسی تشدد کی ہی نہیں تھی بلکہ سائبر کرائمز، ذہنی تشدد اور بلیک میلنگ جیسے اہم معاملات بھی اٹھائے گئے۔ آج کل کے زمانے میں عورتوں کو جن ممکنہ چیلنجز کا سامنا تھا ان سب پر نہ صرف بات کی گئی بلکہ ان کے سدباب کے لیے ملتان میں انسداد تشدد مرکز برائے خواتین قائم کیا گیا جہاں کا تمام عملہ بھی عورتوں پر ہی مشتمل تھا۔ یہاں پولیس، وکیل، ڈاکٹر یہاں تک کہ بعد از سانحہ تھراپی کے لیے سائیکالوجسٹ بھی موجود تھے۔ مقصد یہی تھا کہ ہر قسم کی مدد ایک چھت کے نیچے فراہم کی جائے۔ دیوار پر لکھ کر لگایا گیا ’اب آپ محفوظ ہیں۔ ‘ شاید کل مقصد بھی یہی تھا۔
یہ سنٹر پوری روانی سے چلنا بھی شروع ہو گیا۔ انسداد تشدد خواتین اتھارٹی بھی قائم کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ادارہ ایشیا میں اپنی نوعیت کا واحد تھا۔ بظاہر دیوانے کا خواب تھا لیکن پورا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
بات عورتوں کی تھی لہذا شور کیوں نہ اٹھتا۔ مختلف شعبہ ہائے فکر میں بھی عجیب سنسنی سی دوڑ گئی۔ ہمیں آج بھی ایک بظاہر مزاحیہ پروگرام یاد ہے جس میں اس سنٹر کے روح رواں سلمان صوفی پر طنز کیا گیا کہ عورتوں کو تحفظ فراہم کر کے مردوں سے زیادتی کی گئی ہے۔ اب وہ اپنی خواتین پر ہاتھ کیسے اٹھائیں گے؟ یا تو ہماری حس مزاح کمزور ہے یا تشدد پر مذاق کچھ خاص شائستہ اسلوب نہیں۔ واللہ اعلم۔
خیر شہباز شریف تو بارش میں ربڑ کے بوٹ پہن کر نکل جاتے تھے اب کیوں نچلے بیٹھتے۔ ٹیم بھی ان ہی جیسی تھی۔ اس سینٹر میں اب تک قریب 2900 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ قریب چار ہزار کیس ایسے ہیں جو زبانی قانونی اور نفسیاتی مدد کے لیے یہاں آئے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر بات پر عورت کو چپ رہنے کا درس دیا جاتا تھا اب کچھ انگڑائیاں کے کر بیدار ہونے لگا تھا۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی ہو گی کہ تمام مسائل حل ہو گئے اور راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ لیکن بارش کا پہلا قطرہ تو اس سوکھی زمین پر پڑ چکا تھا۔
ہر شب غم کی سحر ہونا ضروری نہیں لیکن حکومت کا بدلنا ضروری ہے۔ شہباز شریف کی جگہ عثمان بزدار لیتے ہیں۔ نیا پاکستان بننے کا اعلان ہوتا ہے۔ فرعونیت اور رعونت کی تمام مثالیں زمین دوز ہونے کی بات ہوتی ہے۔ گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں بیچ دی جاتی ہیں۔ وزرا دال روٹی کھانے لگتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب سوراخ والے کرتے پہننے لگتے ہیں۔ سادگی کی وہ مثال قائم کی جاتی ہے کی جس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ سب یہاں کیوں رکنے لگا؟ سب کو سادگی اپنانا ہو گی۔ انسداد تشدد مرکز برائے خواتین کی بجلی کاٹی جاتی ہے۔ پانی کاٹا جاتا ہے۔ تمام ملازمین کی تنخواہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ ہر قسم کے اضافی خرچے بند جو کرنا ہیں۔ بس دیوار سے ’اب آپ محفوظ ہیں‘ نہیں مٹایا جاتا۔ بجا فرمایا یا ارباب اختیار۔
کیا لوگ پیٹ پر پتھر باندھ کر نہیں سوتے؟ کیا روز ازل سے لوگوں کے دفتروں میں بجلی کی سہولت تھی؟ اگر ان ملازمین کے گھروں میں دو وقت کی روٹی نہیں ہے تو کیا ہوا؟ کیک نہیں کھا سکتے؟ کیا عورت پر تشدد واقعی ایسی چیز ہے جس کے لیے اتنا بڑا سینٹر قائم کر دیا جائے؟ ملک کی آبادی تو پہلے ہی بہت ہے۔ کچھ لوگ بھوک اور تشدد سے مر بھی گئے تو کیا ہوا؟
عجیب لوگ ہیں جو تنخواہیں نہ ملنے پر شور مچا رہے ہیں۔ سننے والے تو گونگے بہرے ہیں۔ اشاروں کی زباں بہتر رہے گی۔
ایک حل یہ بھی ہے عورتوں کو یہ تلقین کی جائے کہ وہ ہر آنسو پی لیں اور اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر چپ سادھ لیں۔ سوشل میڈیا سے دور رہیں۔ اور نو مہینے سے بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے ملازمین پیٹ سے پتھر باندھ لیں اگر زہر کھانے کے پیسے نہیں۔ سب سیٹ ہو جائے گا۔
حضور کا اقبال بلند ہو۔ تشدد وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔ بس باتیں بنی ہیں۔ اور یہ ملازمین تو بس یوں ہی لب ہلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی خرافات ہیں سب۔ ان نالائقوں کو یہ لگتا ہے کہ ان کے لب آزاد ہیں۔ ان کفن پوشوں کو یہ نہیں معلوم کہ ارباب کے کان بندھے ہیں۔ عورتوں کو کیا محفوظ کریں گے۔ اس سینٹر کی تو اپنی حفاظت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
فیض صاحب کا خیال تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا جس میں
’ہم دیکھیں گے‘
’ہم دیکھیں گے‘
وہ تو رخصت ہوئے۔ دیکھنے کے لیے ہمیں چھوڑ گئے۔ اور ہمیں دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔
سلامت رہئیے۔ حق حکومت وقت حق۔
سلامت رہئیے۔ حق حکومت وقت حق۔