کیا پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکتا ہے؟

مبشرہ خالد
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر حکومت پاکستان کی جانب سے چند ماہ پہلے ایک تحریک کا آغاز کیا گیا ہے جس میں شامل گانے کو بھی کافی مقبولیت حاصل ہورہی ہیں اور پاکستانیوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر آبادی پر قابو نہیں پایا گیا تو اگلے چند سالوں میں پاکستان کی آبادی ڈبل، ٹرپل ہوجائے گی اور اس کو زندگی کی ضروریات فراہم کرنا حکومت کے لیے مشکل ہوجائے گا پاکستان پر پہلے ہی قرضے کا بوجھ ہے اور آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب درآمدات بڑھائی جائے گی تو قرضہ بھی بڑھ جائے گا۔ اس لیے بڑھتی ہوئی آبادی پر بروقت قابو پانا بے حد ضروری ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زائد آبادی کے نقصانات کے بارے میں تو پچھلے کئی سالوں سے بتایا جا رہا ہے مگر اس کے لیے عملی اقدامات کے بارے میں کبھی بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا صرف سرکاری چینل پر خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ کونڈوم کے اشتہار چلانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور پھر جب ختم کی جاتی ہے تو متھیرا کو اشتہار میں لے کر اشتہار چلایا جاتا ہے کہ شاید اس سے ہی کوئی کامیابی نصیب ہوجائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹرین ہی غلط پٹری پر چل رہی ہے اور اسے صحیح پٹری پر لانے کی ضرورت ہے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجوہات بھی مختلف ہیں اور ان کا تدارک بھی دوسرے طریقے سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کی بیشتر آبادی کا تعلق اس طبقے سے ہیں جس کے لیے بچے پیدا کرنا اور ان کو پال لینا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ انھیں اس کی پرورش کی کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہوتی ان کی نظر میں بچہ اپنا رزق خود لے کر آتا ہے اور خود بھی کما کر کھاتا ہے اور انھیں کھلاتا ہے۔
پاکستان کی آبادی پر قابو پانے کے لیے چند اہم اقدامات لینے کی شدید ترین ضرورت ہے
خواتین کی تعلیم وتربیت
نچلہ طبقہ میں عمومی طور پر بچوں کی تعداد نو سے دس ہوتی ہے اور اگر ہم غور کرے تو پتا چلتا ہے کہ گھروں پر کام کرنے والی ماسیاں عمومی طور پر حالات زچگی میں بھی گھروں پر کام کررہی ہوتی ہیں اور ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ کام کرنے پر اس لیے مجبور ہے تاکہ بچوں کو کھلا سکے کیونکہ شوہر نشہ کرتاہے اور اگر وہ کام نہیں کریں گی تو زندگی کی گاڑی کیسے چلی گی؟ ایسے میں یہ بات ضروری ہے کہ ان کی نظر میں ان کی ذات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے انھیں یہ بات سمجھائی جائے کہ وہ انسان ہیں، ان کے بھی احساسات اور جذبات ہیں اور ان کی صحت بھی اہم ہے اگر وہ بغیر سوچے سمجھے بچے پیدا کرتی رہیں گی تو اس میں ان کی توانائی لگی گی، وہ وقت سے پہلے کمزور ہوجائیں گی اور پھر بچے پالنے کے لیے انھیں کمانا بھی پڑے گا اس لیے یہ بہتر ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوچے، سمجھے بچوں کے درمیان وقفہ کے طریقوں کے بارے میں لیڈی ڈاکٹر سے معلوم کریں اور اپنی ذات کو اہمیت دیتے ہوئے ان طریقے کاوں ر پر عمل بھی کریں کیونکہ ان کے وجود پر ان کے شوہر کا نہیں ان کا اپنا بھی حق ہے اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ضرورت یا عیاشی
فی الوقت ہم جس دور میں ہے وہاں نیٹ تک رسائی بہت آسان ہے اور پھر اس نیٹ پر موجود فحش مواد تک رسائی اور بھی زیادہ آسان ہے۔ ایسے میں مردوں کا حد سے زیادہ شہوت پرست ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ایسے میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے نیٹ پر موجود فحش مواد تک رسائی کو مشکل نہیں ناممکن بنایا جائے اور اس کے بعد مردوں میں اس بات کو عام کیا جائے کہ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل احتیاط کا استعمال کرتے ہوئے اور بغیر بچہ پیدا کیے بھی پوری کرسکتے ہیں اس لیے وہ اپنی گھر والی پر بھی رحم کریں اور اس آنے والے بچہ پر بھی جس کی زندگی گھٹتے اور سسکتے گزرتی ہے صرف چند لمحوں کی لذت کے لیے دو زندگیوں کے ساتھ کھیلنا کہاں کی انسانیت ہے؟
بچہ مزدوری پر روک تھام
پاکستان میں بچہ مزدوری عام ہے یہاں پر گھروں میں دس سے بارہ سال کے بچہ، بچیوں کو کام پر رکھا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ چائے کے ڈھابوں، مکینک غرض یہ کہ ہر جگہ ہی بچہ، بچیاں کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جب ان بچوں کے والدین کو یہ بات پتا ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے خود کما اور کھاسکتے ہیں تو انھیں بھی بچوں کی تعداد بڑھ جانے کا کوئی خوف نہیں ہوتا ایسے میں یہ زیادہ اہم ہے کہ پاکستان کی آبادی کو بڑھنے سے روکنے کی لیے بچہ مزدوری کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائے بچہ مزدوری پر مکمل پاپندی لگا دی جائے اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ جب نچلہ طبقہ کو یہ بات پتا ہوگی کہ انھیں اپنے بچے خود پالنے ہیں تو وہ بچوں کی تعداد کے بارے میں حساس ہوں گے کیونکہ انھیں بچوں کو پال پوس کرخود بڑا کرنا ہوگا جو آسان کام نہیں۔
میڈیا پر چلنے والے مواد کی چانچ پڑتال
آج کل خبروں کے چینلز کی بھر مار ہیں جن پر چلنے والے مواد کی چانچ پڑتال کرنا پیمرا کی ذمہ داری ہے اور پیمرا اکثر و بیشتر یہ ذمہ داری نبھاتا بھی رہتا ہے۔ اس لیے پیمرا کو خبروں کے چینلز کو اس بات کا پابند کرنا چاہیے کہ وہ خبروں میں کوئی ایسا پیکیچ نہیں چلائے جس میں یہ بتایا جائے کہ فلاں ضلع میں ایک شخص کے بیس بچے ہیں اور وہ ان کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے اس قسم کے پیکیجیز دیکھ کر نچلہ طبقہ کو تحریک ملتی ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی تعداد میں اضافہ کر کے خوش رہ سکتے ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی پر غورو فکر
ایسے مواد پر، جس میں خاندانی منصوبہ بندی کی تشہیر کی جارہی ہو،  پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ اگر ہم پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آبادی پر قابو پانے کی کوشش کی جائے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب حکومت اپنا، ادارے اپنا اور ہم اپنا فرض نبھا کر آبادی کو قابو میں رکھنے کے طریقوں پر غور کریں۔