انسان اپنے لئے کم اور اپنی اولاد کے لئے زیادہ جیتا ہے۔ اولاد کی تکلیف پہ درد والدین کو ہوتا ہے اور اولاد کی خوشی والدین کے سکھ کو بڑھاتی ہے۔ اولاد کو ہر سکھ، ہر خوشی اور ہر طرح کی آسائش دینے کے لئے والدین اپنی نیندیں قربان کرتے ہیں، اپنا سکھ تیاگ دیتے ہیں۔ پہلے یہ بات صرف پڑھنے اور سننے تک محدود تھی۔ جب خود والدین بنے تو جانا کہ یہ تو حرف بہ حرف سچ کی کتھا ہے۔ یہ تو لفظ لفظ حقیقت ہے۔
بچے تعداد میں جتنے بھی ہوں ہر ایک کے لئے پیار کا الگ خانہ ہے۔ ہر بچے کی اپنی جگہ ہے اور لاڈ کا الگ انداز۔ اگر جو والدین سے پوچھا جائے کہ وہ کون سے بچے کو زیادہ چاہتے ہیں تو وہ کبھی بھی کسی ایک کا نام نہیں لیں گے۔ گڑکی ڈلی کو جس جگہ سے بھی چکھا جائے ”گڑ“ میٹھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اولاد تعداد میں بڑھے یا عمر میں، ہر صورت والدین کی ذمہ داریاں بڑھا دیتی ہے۔
والدین اولاد کے سکھ کے لئے اپنا آرام تج دیتے ہیں۔ جدید دور کی ہر آسائش مہیا کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بھاگتے والدین آسائشات فراہم کرنے کے چکر میں بچوں کو ”وقت“ دینا بھول جاتے ہیں۔ اپنے وقت کے دائرے میں سفر کرتے کرتے بچوں کے ”دائرے“ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اور پتا ہی نہیں چلتا کب والدین اور اولاد میں ”فاصلہ“ بڑھ گیا۔
والدین شہر سے ہوں یا دیہات سے، مصروفیت دونوں طرف ایک جیسی ہوتی ہے، نوعیت ممکن ہے کہ الگ الگ ہو۔ ممکن ہے شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی کے ساتھ ہم قدم ہونے کی چاہ، شہر وں میں مقیم والدین کو مصروف رکھتی ہو۔ اگر ماں اور باپ دونوں نوکری پیشہ ہوں تو بچوں کو نوکری کے اوقات میں کہاں مصروف کیا جائے؟ بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسی مسئلے کے حل کے لئے ”دستیاب وسائل“ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ وسائل ڈے کیئر سنٹرز سے لے کر مہنگے ٹیوشن سینٹرز پہ مشتمل ہیں۔ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت وہاں ”مصروف“ کیا جائے تا کہ بچے ”محفوظ“ ہاتھوں میں رہیں، لیکن وہ ہاتھ کتنے محفوظ ہیں یہ بچے اور والدین دونوں کی ”خوش قسمتی“ پہ منحصر ہوتا ہے۔ وہاں سٹاف بچے سے قسم کا برتاؤ کرتا ہے؟ اگر بچہ چھوٹا ہو تو وہ والدین کو بتانے سے قاصر ہوتا ہے۔ بچہ وہاں کس طور سے ہراساں کیا جا رہا ہے؟ یہ ہراسانی ذہنی ہے یا جسمانی؟ ڈر کی وجہ سے بچہ بتانے سے گریز کرتا ہے۔
کچھ والدین جواپنے بچوں کے بارے میں زیادہ کانشس ہوتے ہیں وہ اس کا انتظام اپنے گھر پر ہی کر لیتے ہیں۔ اس دوران وہ بے فکری سے اپنے امور کی انجام دہی کرتے ہیں۔ اب ٹیوشن ٹیچر چاہے وہ سکول سے متعلق ہو یا قران کی تعلیم سے جڑا ہو وہ آزاد ہوتا ہے جو چاہے بچے سے سلوک کرے۔ بچے کی ہلکی پھلکی ”سسکی“ والدین یہ سوچ کر ہی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ ”استاد“ کا حق ہے۔ اگر بچہ اپنے ٹیچر کی شکایت بھی کرے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر کے چپ کرا دیا جاتا ہے۔
دن چوبیس گھنٹون کا ہوتا ہے اور والدین کی مصروفیت چھبیس گھنٹوں پہ پھیل جاتی ہے۔ ضروری امور سے جو وقت بچتا ہے وہ ”شیطانی ڈبوں“ (ٹی وی، موبائل، لیپ ٹاپ) کی نذر ہو جاتا ہے۔ بچہ بھی سارا ٹائم پڑھنے سے تھک جاتا ہے تو اسے بھی ٹیب کا ”لالی پاپ“ تھما دیا جاتا ہے۔ اب بچہ جو چاہے دیکھتا رہے، کون چیک کرتا ہے؟ آپ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ بچے ابھی معصوم ہیں کچھ ایسا ویسا نہیں دیکھیں گے تو معذرت کے ساتھ آپ غلطی پہ ہیں۔ گوگل پہ ”بول“ کر کیسے سرچ کیا جاتا ہے یہ ہم نے اپنے بچوں سے سیکھا ہے۔
والدین اگر دیہی علاقے میں سکونت پزیر ہیں توباقی کام اپنی جگہ، وہاں ”روایات اور رواج“ کے نام پہ جو مصروفیات ہیں، بیان سے باہر ہیں۔ ایک سادہ سی خوشی اور غمی کے نام پہ مہینوں ”متاثرہ“ گھرانے کے چکر میں ہی برباد کر دیے جاتے ہیں۔ اس دوران بچے کیا کرتے ہیں؟ کیا کھیلتے ہیں؟ کیا سیکھتے ہیں؟ والدین کو اس بات سے کوئی سروکار ہے نہ پریشانی۔ بچہ ”گلیوں“ میں کھیلتا ہے اور ”گالیوں“ پہ پلتا ہے۔ ہر عمر کے بچے بچیاں اکٹھے کھیلتے ہیں اور وہ سب سیکھ جاتے ہیں جسے سیکھنے کی عمر نہیں ہوتی۔ دیہاتی ویسے ہی کھلے ماحول رکھتے ہیں اور بات چیت کے دوران یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بات کو کتنا ”کھولنا“ اور کتنا ”تولنا“ ہے۔ یہی عادات نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں اور حدود بھول جانیوالے یہ بھول جاتے ہیں کہ کس کو کہاں تک ”ہاتھ“ لگانا ہے؟ ہر بات اور ہر ہاتھ کو نارمل سمجھا جاتا ہے۔
مصروفیت، تھکن، روایات سب اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔ لیکن اولاد اس سب سے بڑھ کر ہے۔ آپ کی اولاد آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ اگر کچھ ”غلط“ ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی آپ ہیں۔ اگر آپ کی اولاد کچھ ”غلط“ کرتی ہے تو بھی ذمہ داری آپ پہ عائد ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو ”حدود“ بتائیے اور ”اخلاقیات“ سکھائیے۔ ان کے کھیل کود کے دوران بھی ان پہ نظر رکھئیے۔ آپ کی نظر ”چوک“ گئی تو کسی اور کی ”نظر پڑ“ جائے گی۔ اپنے بچوں سے گپ شپ کیجئے، ان کی سنئیے اس سے پہلے کے باہر سے کوئی آ کے کچھ ”سنا“ جائے۔
اپنے بچوں کو وقت پر ”وقت“ دیجئے، اس سے پہلے کہ ”برا“ وقت آ جائے۔ اپنے بچوں کی خبر رکھئیے قبل اس کے کہ ان کی ”خبر“ بن جائے۔ فرشتہ اور زینب بھی ہماری بچیاں تھیں اور ان کو خبر بنانے والے بھی کسی کے لخت جگر۔ دوستی اور روایات ضرور نبھایئیے لیکن اپنے بچوں کو اپنا دوست بنائیے۔ اگر آپ یہ سب نہیں کریں گے تو باہر کے لوگ انہیں اپنا دوست بنائیں گے اور پھر کوئی ایسا سبق سکھائیں گے کہ آپ کی نسلیں وہ ”سبق“ مدتوں یاد رکھیں گی۔