ڈاکٹر خالد سہیل۔ رخسانہ فرحت رخسانہ فرحت کا خط محترم ڈاکٹر خالد سہیل اسلام و علیکم! امید کرتی ہوں کہ آپ بخیریت ہیں، امید یقین میں بدل جاتی ہے جب ”ہم سب“ پر آپ کے آرٹیکل پڑھتی ہوں۔ اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے کہ اس دنیا میں ”مسیحا“ بہت کم ہیں۔ سب سے پہلے شکریہ کہ آپ نے میرے خط کا جواب دیا اور معذرت کہ میں نے خط کے آخر میں آپ کو دوست لکھا، مجھے نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ اگر آپ کو برا لگا ہو تو اس کے لئے معذرت۔ آپ کے کالم کو میں ہمیشہ ایک ”استاد“ کے لیکچر کی حیثیت سے دیکھتی ہوں اور کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ محترم ڈاکٹر آج کل وقت ک…
ابھی ابھی فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری ہے جس میں طلباء کے یکجہتی مارچ کی ایک تصویر جس میں ایک خاتون واضح طور پر دکھائی گئی تھی اور تصویر کے ساتھ لکھا تھا ”لال لال تو جب لہرائے گا لہرائے گا، ابھی تو تیرے ابھار نے میرے جذبات میں ہلچل مچا دی ہے“۔ یہ ایک فقرہ نہیں، ہماری قوم کے مردوں کی اجتماعی سوچ کی نشاندہی کرتا ایک مکمل پیکج ہے۔ عورت اس معا شرے کے لئے ہمیشہ جنسی آسودگی کی ”شے“ رہی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں جنسی گھٹن اور فرسٹریشن کا راج ہو وہاں یکجہتی مارچ میں شامل خواتین ہوں یا اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ”اورنج کمپین“ کا حصہ ہوں، اس طرح کے بیہو…
رخسانہ فرحت انسان اپنے لئے کم اور اپنی اولاد کے لئے زیادہ جیتا ہے۔ اولاد کی تکلیف پہ درد والدین کو ہوتا ہے اور اولاد کی خوشی والدین کے سکھ کو بڑھاتی ہے۔ اولاد کو ہر سکھ، ہر خوشی اور ہر طرح کی آسائش دینے کے لئے والدین اپنی نیندیں قربان کرتے ہیں، اپنا سکھ تیاگ دیتے ہیں۔ پہلے یہ بات صرف پڑھنے اور سننے تک محدود تھی۔ جب خود والدین بنے تو جانا کہ یہ تو حرف بہ حرف سچ کی کتھا ہے۔ یہ تو لفظ لفظ حقیقت ہے۔ بچے تعداد میں جتنے بھی ہوں ہر ایک کے لئے پیار کا الگ خانہ ہے۔ ہر بچے کی اپنی جگہ ہے اور لاڈ کا الگ انداز۔ اگر جو والدین سے پوچھا جائے کہ وہ کون سے بچے…
Social Plugin