ایسی شادیاں جن میں محبت مر چکی ہے

ڈاکٹر خالد سہیل۔ رخسانہ فرحت
رخسانہ فرحت کا خط
محترم ڈاکٹر خالد سہیل
اسلام و علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ بخیریت ہیں، امید یقین میں بدل جاتی ہے جب ”ہم سب“ پر آپ کے آرٹیکل پڑھتی ہوں۔ اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے کہ اس دنیا میں ”مسیحا“ بہت کم ہیں۔ سب سے پہلے شکریہ کہ آپ نے میرے خط کا جواب دیا اور معذرت کہ میں نے خط کے آخر میں آپ کو دوست لکھا، مجھے نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ اگر آپ کو برا لگا ہو تو اس کے لئے معذرت۔ آپ کے کالم کو میں ہمیشہ ایک ”استاد“ کے لیکچر کی حیثیت سے دیکھتی ہوں اور کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔
محترم ڈاکٹر آج کل وقت کی فراوانی ہے اور فارغ وقت سوچ کا در وا کرتا ہے۔ ابھی ہم سب پر آپ کا آرٹیکل پڑھا ہے جس میں آپ نے شادی شدہ زندگی اور اس کو جہنم بنانے والے مسائل کو موضوع بحث بنایا۔ آپ نے لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا۔ میرا موضوع فقط ایک گروہ ہے۔ آپ نے لکھا
”دوسرا گروہ ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو شادی شدہ ہیں لیکن انہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کی شادی سے محبت غائب ہو گئی ہے۔ وہ اپنی روز مرہ زندگی کی ذمہ داریوں میں اتنے الجھ گئے ہیں اور اپنے کام اور بچوں کی نگہداشت میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنا خیال رکھنا بھول گئے ہیں۔ میں ایسے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے شریکِ سفر سے کھل کر بات کریں اور مل کر اپنے مسئلے کو سلجھائیں۔ میں انہیں یہ بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ میاں بیوی کے طور پر باہر جائیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ لنچ پر جائیں، ڈنر کھانے جائیں، فلم دیکھیں، کونسرٹ سنیں۔
بعض دفعہ زندگی کی ذمہ داریاں محبت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں۔ شادی میں محبت کو زندہ رکھنا ایک فن ہے جس سے بہت سے شادی شدہ لوگ ناواقف ہیں۔ اگر آپ نے اپنے ماں باپ کو پیار بھری باتیں کرتے نہیں سنا تو وہ فن آپ کو خود سیکھنا ہوگا۔ میاں بیوی نے اگر خوشحال زندگی گزارنی ہے تو انہین ایک دوسرے کا دوست اور محبوب بھی بننا ہوگا ورنہ وہ ساری عمر اجنبی بن کر گزار دیں گے ”
آپ نے مسئلہ بھی لکھا اور اس کا حل بھی بتایا، لیکن ان مسائل کے پیچھے کون سے نفسیاتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات سارے خاندان کا جھگڑا مول لے کر محبت کی شادی کرنے والے جوڑوں کی زندگی سے بھی محبت غائب ہو جاتی ہے؟ کبھی عورت کو گلہ کے سارے خواب جو شادی سے پہلے دکھائے گئے تھے وہ کہیں کھو گئے ہیں۔ اور کبھی مرد شکوہ کناں کہ زندگی عذاب بن گئی ہے۔ انجام کار کچھ حضرات دوسری اور بعض دفعہ تیسری اور چوتھی شادی کا شوق پورا فرما لیتے ہیں۔ کچھ حد تک خواتین بھی ”پرانی محبت“ کی تلاش میں ”نیا مرد“ تلاش کر لیتی ہیں اور بے وفا کہلاتی ہیں۔
اس سارے عمل میں سب سے زیادہ اولاد متاثر ہوتی ہے۔ اگر آپ ان نفسیاتی عوامل پر روشنی ڈالیں اور محبت کو زندہ رکھنے کے فن کی تلاش میں رہنمائی فرمائیں تو بہت سارے جوڑوں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ نظرانداز ہونے والی مخلوق ”بچوں“ کا بھی بھلا ہو گا۔ تاکہ ان کے حال اور مستقبل میں والدین کے ماضی کی وجہ سے کوئی نفسیاتی مسئلہ نہ ہو۔ امید ہے کہ آپ اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر اس خط کا جواب ضرور دیں گے۔
ہم سب پر آپ کے جواب کی منتظر
رخسانہ فرحت
۔ ۔ ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
۔ ۔
رخسانہ فرحت صاحبہ!
یہ میرے لیے خوشی ’مسرت اور فخر کی بات ہے کہ آپ نے مجھے اپنا دوست جانا اور لکھا۔ میری نگاہ میں محبت عقیدت سے زیادہ قیمتی رشتہ ہے۔ استاد شاگرد کے رشتے میں عقیدت کے رشتے کی طرح ایک فاصلہ ہوتا ہے۔ دوستی میں قربت ہوتی ہے۔ اب آپ قبول کر لیں کہ آپ میری دوست ہیں۔
محبت ’شادی‘ خاندان اور بچوں کے رشتے کانچ کے رشتوں کی طرح بہت نازک رشتے ہیں۔ اگر انسان محتاط نہ رہیں تو ٹوٹ جاتے ہیں۔
میں اپنے تیس سالہ پیشہ ورانہ تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محبتوں کے مختلف موسم ہوتے ہیں اور ہر موسم کے جداگانہ پھل۔ محبت کے رشتے ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں اور ہر مرحلے کی اپنی جداگانہ آزمائشیں ہوتی ہیں جن پر سب پورا اتر نہیں پاتے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں محبت کے اس دائرے کو cycle of loveکا نام دیتا ہوں۔
ہم نے اپنے کلینک میں جن مردوں اور عورتوں اور جوڑوں کی مدد کی ہے ہم انہیں چار گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
1.HAVE DIFFICULTIES INITIATING AN INTIMATE RELATIONSHIP
پہلا گروہ ان عورتوں اور مردوں کا ہے جو محبت اور شادی کے رشتے کا آغاز ہی نہیں کر سکتے۔ وہ یا شرمیلے ہوتے ہیں یا احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور یا وہ ایسے ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں کہ انہین جنسِ مخالف سے ملنے کے مواقع نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو اپنے رومانوی جذبات کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ یا تو دوستوں رشتہ داروں یا انٹرنیٹ کی ویب سائٹ سے مدد لے کر محبوب یا شریک سفر یا شریک حیات تلاش کرتے ہیں۔
2. HAVE DIFFICULTIES MAINTAINING AN INTIMATE RELATIONSHIP
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو رومانوی یا ازدواجی رشتہ شروع تو کر لیتے ہیں لیکن اسے نبھا نہیں پاتے۔ جلد یا بدیر یا جدائی ہو جاتی ہے یا طلاق اور یا اس محبت کی شادی سے محبت غائب ہو جاتی ہے۔ ایسے مردوں اور عورتیں کی محبت کا پھول مرجھا جاتا ہے۔ ایسے جوڑے چند ہفتوں ’مہینوں یا سالوں کے بعد ایک ایسے روٹین کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں محبت کے پودے کو پانی نہیں ملتا اور وہ سوکھنے لگتا ہے۔ میاں بیوی کا دوست اور محبوب رہنا اہم ہے۔
ان کا ایک دوسرے سے دل کی باتیں کرنا زندگی کے مسائل کے بارے مں تبادلہِ خیال کرنا اور ایک دوسرے کو خوش رکھنا اہم ہے۔ میری نگاہ میں طلاق کا نہ ہونا شادی کی خوشی کا آئینہ دار نہیں ہے۔ میں بہت سے شادی شدہ جوڑوں سے مل چکا ہوں جو بہت ناخوش ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ شادی کا لفظی معنی خوشی ہے۔ اگر شادی میں خوشی ہی نہ رہے تو وہ شادی کیسی۔
3. DIFFICULTIES ENDING AN UNHAPPY INTIMATE RELATIONSHIP
تیسرا گروہ ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی غلط شخص سے شادی ہو گئی ہے جس کی وہ دل سے قدر نہ کرنے کے باوجود اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ شادی میں محبت کب کی مر چکی ہے لیکن وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ’لوگ کیا کہیں گے‘ ۔
بعض احساسِ گناہ اور ندامت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض کی انا آڑے آتی ہے کہ اگر ہم نے خود محبت کی شادی کی ہے تو لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اکثر پریشان حال جوڑے کہتے ہیں کہ ہم ’اپنے بچوں‘ کی خاطر ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ ساتھ رہ کر وہ اپنے بچوں کو کیا درس دے رہے ہیں۔ کیا وہ یہ مثال قائم کرنا چاہتے ہیں کہ میاں بیوی کوساتھ رہنا چاہیے چاہے محبت ’نفرت‘ غصہ اور تلخی میں ہی کیوں نہ بدل گئی ہو۔
4. DIFFICULTIES STARTING A NEW INTIMATE RELATIONSHIP
بعض مرد اور عورتیں جدا بھی ہو جاتے ہیں طلاق بھی لے لیتے ہیں لیکن پھر وہ اتنے دکھی اور دل برداشتہ ہو جاتے ہیں کہ شادی اور محبت سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ ان کا محبت سے ایمان اور شادی سے یقین اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ تنہا رہنا شروع کر دیتے ہیں اور احساسِ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہم اپنے کلینک میں بہت سے مردوں اور عورتوں کی تھراپی کرتے ہیں اس پھیریپی میں انفرادی تھراپی کے ساتھ ساتھ گروپ تھراپی بھی شامل ہے۔ ایسی گروپ تھراپی میں مریض اور مریضائیں ایک محفوظ ماحول میں ایک دوسرے سے محبت کی کامیابی کے راز سیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو کامیاب محبت اور شادی کی زندگی گزارنے میں مدد دیتے ہیں۔
دو ماہ پہلے جب ایک نیا مریض آیا تو ایک پرانا مریض رخصت ہو رہا تھا۔ نئے مریض نے پرانے مریض سے پوچھا کہ تین سال کی تھیرپی سے تم نے کیا سیکھا۔ پرانے مریض نے کہا کہ تین سال پہلے جب میں تھیرپی کے لیے آیا تھا تو میں سمجھتا تھا کہ جب میری شادی ناکام ہوئی تو میں بھی ناکام ہو گیا تھا لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ میری شادی ناکام ہوئی تھی میں ناکام نہیں ہوا تھا۔ اب مجھے پوری امید ہے کہ میں ایک نئی امید سے نئی محبت اور شادی کروں گا۔ جب میں تھیرپی کے لیے آیا تھا تو میری خود اعتمادی بیس فیصد تھی اب وہ نوے فیصد ہے۔
ڈیت رخسانہ فرحت صاحبہ!
محبت اور شادی کا موضوع بہت طویل ہے۔ میں نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے
THE ART OF LOVING IN YOUR GREEN ZONE
اگر آپ پڑھنا چاہتی ہیں یا اس کالم کا کوئی اور قاری پڑھنا چاہتا ہے تو مجھے
welcome@drsohail.com
پر ای میل کر دیں اور میں آپ کو اس کتاب کی پی ڈی ایف فائل بطورِ تحفہ بھیج دوں گا۔
آپ کا دوست
ڈاکٹر خالد سہیل