جانے وہ دن کیا ہوئے جب بے موسم بارشیں عذابِ الہیٰ نہیں ہوتی تھیں بلکہ حاکمِ وقت کی صداقت و امانت پر مہرِ خداوندی ثبت کرتی تھیں۔ زلزلے کے جان لیوا جھٹکے ایک با کردار کے کرسئی اقتدار پر نزول کے جشن میں زمین کی انگڑائیوں سے تعبیر ہوتے تھے۔ خدا معلوم کیا کایا پلٹی ہے۔ فکر و تصور کے سوتے خشک ہوئے یا یہ دورِ وبا بے امکان ہوا کہ داد کی کشید کی کوئی صورت نہ رہی۔ آنگن یوں ٹیڑھا ہوا ہے کہ تان دشنام بنام زن اور الزام بر گردنِ عوام پر ٹوٹی ہے۔
تحقیر کے اٹوٹ تسلسل میں اپنی کوتاہ نصیبی کے گلے کا یارا بھی بھلا کسے تھا۔ بہتر سال گزرگئے۔ کئی دانا آئے اور گئے مگر کرم متواتر رہا۔ کبھی اہلِ بنگال تھے جو دھرتی سے جڑے ہندو تہذیب میں رچے بسم اللہ کی درست ادائیگی تک سے محروم تھے۔ ان کمتر مسلمانوں کو افضل درجے پر لانا روز محشر ہمارے مرتبے کی ضمانت ٹھہرا۔ جب یوں نہ ہوا تو سر تن سے جدا والا جذبہ مشعلِ راہ بنا۔ نابغہ روزگار ہستیاں تو سمجھا گئیں تھیں کہ جمہور کی حکمرانی کا خواب گرم خطوں میں وبالِ جاں ہے۔
اسی دانش کی کوکھ سے وہ صبح پھوٹی جب عددی برتری کو اساس بنا کر حکمرانی کی تمنا کرنے والے شر پسند گاجر مولی کی طرح کٹے۔ یہ درخشاں دماغ اپنی آب و تاب دکھا کر انتظامِ مملکت سے دست کش کیا ہوئے کہ جمہور ’لوحِ ازل‘ پر لکھے کسی وعدے کے ایفا ہونے کی امید کی پرورش کرنے لگی۔ ’لازم‘ ہوا کہ یہ جو ’مردود حرم مسند پر بٹھائے‘ جانے کی بات کرتے ہیں انہیں ایمان و حق کی طاقت یاد دلائے کہ جو دستاویز جمہور کے حق کی بات کرے وہ جابر و آمر کے تلوے تلے۔
اور پھر ’ایک گلی کی بات گلی گلی‘ ہوئی۔ خود ساختہ حکمرانوں کو سات سمندر پار پرائے گھر جا کر بتانا پڑا کہ ’گلیوں کے آوارہ کتے‘ خود کو مہذب اقوام جیسا نہ سمجھیں۔ تہذیب یافتہ لوگوں کے لئے جائے وقوع کے گرد لپٹی پیلی ٹیپ تنبیہ کرنے کو کافی مگر حیاتیاتی ارتقا کے بیچوں بیچ اٹکے یہ جبر کی صرف و نحو سمجھتے انسان نما بندر دیواروں کی پیمائش کرتے جائے وقوع کو ہی تہ و بالا کر دیتے ہیں۔ آج راست گوئی نے وہ افزائش پائی ہے کہ ڈیووس ہو کہ بیجنگ، کوالالمپور ہو کہ نیویارک خبر عام ہے کہ یہ محصول چور اور بد دیانت لوگوں کی قوم ہے۔
جو حکمران نصیب ہوا جبرائیل کو شرماتا خود پہ اتراتا نصیب ہوا۔ یہ ہمیں راندہ درگاہ تھے جو ان نائبانِ خدا کے لائق نہ تھے۔ ڈھٹائی بھی ایسی پائی کہ کبھی اہلِ سیف و سِپر کو ارزانی یاد دلانا پڑتی ہے تو کبھی اہلِ جبہ و دستار کو آئینہ دکھانا پڑتا ہے کہ یہ ملک ’دس کروڑ‘ سے بیس ہوئے ’گدھوں‘ کا ہے جن کی بے حیا عورتیں قہرِ الہیٰ کو للکارتی ہیں اور ان پڑھ لوگ بیماریاں پھیلاتے ہیں۔
کشمیر و خیبر پختونخوا کا زلزلہ ہو کہ وبا کا موسم ہر آفت عورت کے لباس و اعضا ہی سے پھوٹتی نظر آتی ہے۔ تشکیک کا مارا ذہن وجودِ زن کی آفت انگیزی کی اس جہت کو سمجھنے کی کوششِ بے حاصل میں الجھا ہوا ہے۔ ’کیا یہ نمرود کی خدائی ہے‘ کہ استحصال، استبداد کو بڑھاوا دیتے، انسانوں کو منصبِ انسانی سے گراتے با حیا ہیں؟ کسی کا شہوت پرور کلام بھی با حیا عبادت کی انتہاؤں پر منتج ہو اور کسی کا شعور کا سفر بھی معتوب ٹھہرے؟ یہ کیا معیار ہے کہ ہزار لبادوں کی نفاست کے پیچھے حورانِ فردوس کی دلکشی کے قصوں سے چشم تصور کو طراوت بخشنے والے تو با حیا ہوں مگر عورت کا وجود کسی چار سالہ معصومہ میں نظر آئے یا منوں مٹی تلے دبی کسی متوفیہ میں وہ بوالہوسی کا دعوت نامہ بن جائے؟