جانے وہ دن کیا ہوئے جب بے موسم بارشیں عذابِ الہیٰ نہیں ہوتی تھیں بلکہ حاکمِ وقت کی صداقت و امانت پر مہرِ خداوندی ثبت کرتی تھیں۔ زلزلے کے جان لیوا جھٹکے ایک با کردار کے کرسئی اقتدار پر نزول کے جشن میں زمین کی انگڑائیوں سے تعبیر ہوتے تھے۔ خدا معلوم کیا کایا پلٹی ہے۔ فکر و تصور کے سوتے خشک ہوئے یا یہ دورِ وبا بے امکان ہوا کہ داد کی کشید کی کوئی صورت نہ رہی۔ آنگن یوں ٹیڑھا ہوا ہے کہ تان دشنام بنام زن اور الزام بر گردنِ عوام پر ٹوٹی ہے۔ تحقیر کے اٹوٹ تسلسل میں اپنی کوتاہ نصیبی کے گلے کا یارا بھی بھلا کسے تھا۔ بہتر سال گزرگئے۔ کئی دانا آئے ا…
Social Plugin